مسلم گھرانوں میں اکثر ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ گھر کے بڑے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ بیجا لاڈ پیار کر کے ان کو بگاڑ دیتے ہیں۔ جب بچہ کوئی بد تمیزی یا کوئی غلاط الفاظ بولتا ہے تو گھر کے سب لوگ اس کو شہ دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اور بھی بگڑ جاتا ہے۔ جب کوئی مہمان ہمارے گھر آتا ہے تو یہی بچہ ان مہمانوں کے ساتھ بد تمیزی کرنا شروع کر دیتا ہے اور ہم اس کو ڈرا کر خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ اور بھی شرارت کرنے لگتا ہے۔ جس پر ہم اس کو مار پیٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گھر کا پورا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ گھر سے مہمان جانے کے بعد ہم اپنے بچے کو منانے کی کوشش کرتے اور افسوس بھی کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچے کو کیوں مارا۔ گھر کے بڑے لوگ اپنی غلطیوں کی طرف ذرا سا بھی توجہ نہیں دیتے۔ ذرا سوچیں اگر ہم اپنے بچوں کو ایک حد میں رہ کر ہر چیز کی طرف توجہ دیتے تو آج وہ بگڑتا نہیں بلکہ ایک قابل ہو نہار اور خوش مزاج اچھے اخلاق والا انسان بنتا۔ مگر ہم نے ایسا نہیں کیا۔ جس کی سزا ہم ہمارے بچے خود بھگت رہے ہیں۔ اب تو زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے، ہماری نوجوان نسل انٹرنیٹ ، اسمارٹ فون، واٹس ایپ، فیس بک کے دور سے گزر رہی ہے۔ ہمارے تو جوان بھائیوں کے اخلاق اپنے بڑوں کے ساتھ اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ جس کی کوئی حد باقی نہیں رہی۔ بات بات پر گالی گلوج ، اونچی آواز میں بات کرنا ، ان کا رواج بن گیا ہے۔ سیدھے منہ بات کرنے میں ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ گھر میں تو ان کا یہ حال ہے، اب ان کے باہر کے ماحول کی طرف چلتے ہیں۔ جب چار دوست ساتھ مل جائیں تو کیا کہنے، دیکھنے والوں کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو کیسے سدھارا جائے، اس کی فکر امت کے ہر فرد پر لاگو ہوتی ہے .یاد رکھئے اولاد کی تربیت صرف ماں یا باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ہے۔ قرآن کاترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔جب نبی اکرم ؐ نے یہ صحابہ کے سامنے تلاوت کی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ تو آپ ؐ نے فرمایا: تم اپنے اہل و عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو جو رب تعالی کو نا پسند ہیں۔آج کے اس نفسانفسی اور مادہ پرستی کے دور میں ہر طرف برائیاں اور جرائم جنم لے رہے ہیں، معاشرتی اور اخلاقی برائیاں وبا کی شکل اختیار کرگئی ہیں ۔ انسان کے تین بڑے دشمن ہیں، شیطان، نفس اور برا ماحول۔ اس صورت حال میں والدین کو اپنی اولاد پر توجہ دینا انتہائی کا ضروری امر ہے۔ اولاد ہی اصل سرمایہ ہے جو آخرت کی ناختم ہونے والی زندگی میں بطور تحفہ ہے، جس کی نگہداشت اور تربیت صحیح اصولوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔لہذا اللہ پاک خود حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کی شریعت کے مطابق تربیت کی جائے۔ لہذا ہمیں اپنی اولاد کو بگڑنے سے بچانا چاہے کہ جتنا ہو سکے، گھر میں دینی ماحول کو پیدا کریں۔ نوجوان نسل کو دینی باتوں سے دین کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں۔ تب ہی ہماری نوجوان نسل کی اصلاح ہوگی۔ اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو کہنے سننے سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ( آمین )
