بچوں کی تربیت کے چند بنیادی اُصول

   

تربیت ایک مسلسل عمل ہے اس لئے بچے کو پہلے دن ہی سے عمدہ اخلاق کی تعلیم دینا شروع کردینا چاہئے ۔ وہ ایک باشعور ہستی ہے جس کا مشاہدہ بڑا تیز ہے ۔ یہ کہنا درست نہیں ، ’’ ابھی اسے کیا سمجھانا ، بڑا ہو کر خود ہی سمجھ جائے گا ۔ ‘‘ جس طرح ہرآن ہر لمحہ بچے کا جسم نشو و نما پارہا ہے بالکل اسی طرح اس کی عادات تشکیل پارہی ہیں ۔ جیسی محنت اور توجہ جسمانی ضروریات کی تکمیل کیلئے درکار ہے اس سے کہیں زیادہ ذہنی تربیت کیلئے درکار ہے ۔ تربیت کے معاملہ میں جزا و سزا ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ اچھے عمل پر جزا اور برے عمل پر سزا موقع و محل کی مناسبت سے دینا ضروری ہے ۔ گلستان کو خوبصورت بنانے کیلئے ہر پودے پر مسلسل نگاہ رکھنا ، اس کی مناسب وقت پر تراش خراش کرتے رہنا باغبانی کا اہم اُصول ہے ۔ تربیت پر مامور ’’ بزرگ ‘‘ وہ مہربان سرجن یا طبیب ہے جس کے ایک ہاتھ میں نشتر اور دوسرے میں مرہم ہے اور ہر وقت اپنے زیرنگرانی فرد کو مکمل تندرست رکھنے کی فکر میں ہے ۔ سیکھنے کے عمل میں انسانی جسم کے اہم اعضاء اپنے اپنے حصہ کے افعال سرانجام دیتے ہیں ۔ ذہنی پختگی اور کنٹرول کیلئے جسم میں موجود مختلف غدودوں کی کارگردگی بڑا اثر رکھتی ہے ۔ اس معاملہ میں سب سے اہم کردار adrenal gland کا ہے ۔ پیدائش کے بعد ایک مختصر سے عرصے کیلئے ( چند دن ) تو اس کا سائز اور فعالیت بہت کم ہوجاتی ہے لیکن اس کے بعد یہ تیزی سے بڑھتا ہے اور پانچ سال تک تیزی سے بڑھتا رہتا ہے ۔ بچے کے فہم اور نفسیات میں جو تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ان میں ان غدودوں کا بڑا اثر ہے ۔ ان کی فعالیت ہی مختلف اعضاء کی پختگی اور کردار کو سانچے میں ڈھالتی ہے ۔ بچہ ایک کام اسی وقت سیکھ سکتا ہے جب وہ جسمانی اور ذہنی طور پر وہ کام سیکھنے کیلئے تیار ہو اس اہم اصول کو Law of readiness کہتے ہیں ۔ خالق کائنات نے اس معاملہ میں حیرت انگیز طور پر ہر بچے میں تدریج و ترتیب رکھی ہے ۔ اس ترتیب کا لحاظ رکھے بغیر بچے کو کوئی کام سکھانا ایک کار لاحاصل ہے ۔ مثلاً چھ ماہ کے بچے کو چلانے کی کوشش کرنا بے سود ہے ۔ اس لئے کہ وہ ابھی اس کیلئے تیار نہیں ، ایک سال کے بچے سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے کپڑے خراب کئے بغیر خود ہی آرام سے کھانا کھالے بے جا ہوگا ۔ اسی طرح اگرچہ بچہ ہر ہر لمحہ سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہے لیکن لکھنا پڑھنا سیکھنے کیلئے زیادہ مناسب عمر ساڑھے تین سے ساڑھے چار سال ہے ۔ مسلم معاشرہ میں سوا چار سال کی عمر سے مکتب میں بچے کی بسم اللہ کروائی جاتی ہے ۔ مثانہ کا کنٹرول دو سے تین سال کی عمر میں کہیں مکمل طور پر ٹھیک ہوتا ہے اس سے پہلے یہ تو ممکن ہے کہ محتاط ماں وقفے وقفے سے رفع حاجت کی عادت ڈال دے لیکن کسی وقت کسی وجہ سے ماں کی توجہ کم ہو یا بچہ کھیل میں مصروف ہو تو کپڑے خراب ہونے کے پورے امکانات ہیں اس میں بچہ قصوروار نہیں کہ اس پر اسے ڈانٹ پھٹکار ہو یا سزا دی جائے ۔ اپنا موڈ خراب کرنے یا بچے کو بُرا بھلا کہنے سے پہلے سوچنا ضروری ہے کہ بچہ اس کام کا اہل بھی ہے یا نہیں جس پر ناراض ہوا جائے ۔ ہر بچہ منفرد ہے ، ہر بچے کی صلاحیتیں اور شخصیت دوسرے سے جدا ہے ۔ ہر وقت بچوں کا باہم موازنہ کرتے رہنا صحیح طرز عمل نہیں ایک بچہ سبق جلد یاد کرتا ہے دوسرا جلد یاد نہیں کرپاتا ۔ ضروری نہیں جو سبق یاد نہیں کررہا کند ذہن ہی ہے ۔ ممکن ہے کہ اس کی توجہ کسی دوسری جانب زیادہ ہو ۔ بچے کی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کو پہچان کر ان سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک بچہ بڑی جلدی ڈسپلین سیکھ جاتا ہے دوسرا کبھی آرام سے نہیں بیٹھ سکتا ، ایک جلد بولنا شروع کردیتا ہے دوسرا جلد چلنے لگتا ہے ، یوں مختلف امور میں بچوں کا باہم مقابلہ و موازنہ ، ایک کی تعریف دوسرے کو ڈانٹنا بچے کے معصوم اور نازک ذہن کو ہمیشہ کیلئے متاثر کرسکتی ہے ۔ والدین بچے سے جو توقعات وابستہ کرتے ہیں وہ بالعموم ان کی پسند و ناپسند معاشرتی دباؤ یا ماحول کے رسم و رواج کے تابع ہوتی ہیں ۔ والدین اپنے ذہن میں ایک نقشہ مرتب کرتے ہیں جس کے مطابق وہ اپنے ہر بچے کو ڈھالنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اس منصوبہ سازی میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ذہن میں کوئی پروگرام ہو لیکن یہ پروگرام بنانے میں جو بات ضروری ہے وہ یہ کہ منصوبہ اور نقشہ اتنا بے لچک نہ ہو کہ بچے کی اپنی صلاحیتیں دب کر رہ جائیں اور اس کی اپنی شخصیت اُبھر کر سامنے ہی نہ آسکے ۔ بچے کی شخصیت کو منفرد بنانے میں مختلف عوامل کام کرتے ہیں ان عوامل کے نتیجہ میں ہم اس دنیا میں تقریباً اتنی ہی مختلف شخصیات دیکھتے ہیں جتنے خود لوگ ہیں ۔ شائد ہی ایسی ہو کہ مزاج ، عادات ، کردار کے لحاظ سے کوئی دو افراد بالکل یکساں ہوں جو مختلف عوامل انفرادیت پیدا کررہے ہیں ان میں بہت اہم موروثی عوامل ہیں ۔