بڑی خبر: ایودھیا تنازعہ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ نے کہا, کاشی اور متھرا سمیت تمام مذہبی مقامات اپنے حال میں رہیں گے باقی

,

   

ایودھیا تنازعہ پر ہفتہ کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ رام للا کو متنازعہ زمین کا مالکانہ حق مل گیا ہے اور انکے کےلیے مندر کا راستہ صاف کردیا ہے۔

 آپ کو بتادیں کہ ایودھیا معاملہ پر عدالت کے فیصلے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کی اسی بینچ نے ملک کے تمام متنازعہ مذہبی مقامات پر بھی اپنا رخ واضح کیا۔ عدالت کے فیصلے سے صاف ہو چکا ہے کہ کاشی اور متھرا میں مذہبی مقامات کی موجودہ صورت حال آگے بھی بنی رہے گی۔ ان میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ کرے گا۔

واضح رہے کہ ایودھیا کی طرح کاشی کے وشوناتھ مندر۔ گیان واپی مسجد تنازعہ اور متھرا میں بھی مسجد تنازعہ سالوں سے چلتا آرہا ہے، عدالت نے اپنے 1,045 صفحات کے تاریخی فیصلے میں 11 جولائی 1991 کو نافذ ہوئے پلیسیز آف ورشپ( اسپیشل پروویژن) ایکٹ، 1991 کا ذکر کرتے ہوئے صاف کر دیا کہ کاشی اور متھرا کے سلسلہ میں موجودہ صورت اپنے حال پر برقرار رہے گی۔

اپ کو معلوم ہو کہ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے الہ باد ہائی کورٹ کے جج جسٹس مشرا کی رائ کو خارج کردیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تمام تنازعات کو عدالت کے سامنے لاۓ جائیں۔

جسٹس مشرا الہ اباد کی 2010 کی بنچ میں شامل تھے جن میں ایودھیا کے متعلق فیصلہ سنایا گیا تھا، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تمام متنازع مقامات کو عدالت کے سامنے لا کر حل کئے جائیں۔

سپریم کورٹ نے جسٹس مشرا کی بات کو نقل کرتے ہوئے ملک کے سیکولر کردار کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک نے اس ایکٹ(1991) کو نافذ کر کے آئینی عہدبستگی کو مضبوط کرنے اور سبھی مذاہب کو یکساں ماننے اور سیکولرزم کو بنائے رکھنے کی پہل کی ہے۔

اپ کو معلوم ہو کہ اس ایکٹ کو بناتے وقت مرکز میں نرسہما راو کی حکومت تھی، اور اسوقت تنازع ایودھیا کے علاوہ کاشی اور متھرا کو بھی لے کر تھا، کسی بھی مذہبی مقام پر بابری مسجد انہدام جیسا کوئی بھی غیر قانونی واقعہ نہ ہو، اس کے لئے اس وقت (1991) میں ایک قانون پاس ہوا تھا۔

واضح رہے کہ یہ ایکٹ میں صاف لکھا تھا کہ 15 اگست 1947 کو ازادی ہند کے دن سے مذہبی مقامات کی جو صورت حال ہے وہ اسی طرح برقرار رہے گی۔ 1991 ایکٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر مذہبی تنازعہ عدالت میں ٹرائل کے لئے لایا جا سکتا ہے۔