بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا

   

مودی سے گلے ملنا… چار حکمرانوں کا زوال
اشرف غنی کو دبئی میں پناہ… دوست نے مایوس کردیا

رشیدالدین
نیک اور بدشگونی کے بارے میں یوں تو ہر کسی نے سنا ہوگا لیکن بسا اوقات تجربہ یا مشاہدہ انسان کے شک کو یقین میں تبدیل کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ بِلی کا راستہ کاٹنا عام طور پر بد شگون تصور کیا جاتا ہے لیکن بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا قدم منحوس یا شنی تصور کیا جاتا ہے جسے انگریزی میں ’ آئرن لیگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ دن میں کوئی کام بگڑ جائے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ صبح کس کی صورت دیکھ کر بیدار ہوئے تھے۔ بہت سے لوگ ہم نے ایسے بھی دیکھے ہیں جو نیند سے بیدار ہوتے ہی والدین کا چہرہ دیکھتے ہیں اور اُن کا ایقان ہے کہ ماں باپ کے چہرے کی زیارت سے دن اچھا گذرتا ہے اور ہر کام میں کامیابی نصیب ہوتی ہے حالانکہ یہ کامیابی محض چہرہ دیکھنے سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے خوش ہوکر والدین کی دعاؤں کا اثر ہوتا ہے۔ کسی بھی انسان کا قدم نیک یا بد نہیں ہوتا لیکن بعض افراد دوسروں کیلئے ’ آئرن لیگ‘ بن جاتے ہیں۔ ایسے افراد کا سامنا کرنے سے لوگ بھاگتے ہیں اور عام خیال یہ ہوتا ہے کہ ایسے افراد کی آمد سے کوئی بھی کام بننے کے بجائے بگڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی نئے کام کے آغاز کیلئے اچھے دن اور وقت کا تعین کیا جاتا ہے جو دوسرے معنوں میں مبارک اور متبرک تصور ہوتا ہے۔ تلگو فلم انڈسٹری میں ’ آئرن لیگ‘ کے نام سے باقاعدہ ایک کردار موجود ہے جو فلموں میں کامیڈی کے ذریعہ ناظرین کو محظوظ کرتا ہے۔ فلموں میں آئرن لیگ کو آتا دیکھ کر لوگ راستہ تبدیل کردیتے ہیں۔ سیاسی میدان میں توہم پرستی کا چلن دیگر شعبہ جات کے مقابلہ زیادہ ہے، بعض قائدین کو پیٹھ پیچھے آئرن لیگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان دنوں ملک میں وزیر اعظم نریندر مودی بدشگونی کے حوالے سے سوشیل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول اور اشرف غنی حکومت کے زوال کے بعد نریندر مودی کو چند بین الاقوامی قائدین کے ساتھ تصاویر میں پیش کرتے ہوئے یہ طنز اور تبصرہ کیا گیا ہے کہ مودی نے جس کو گلے لگایا وہ زوال کا شکار ہوگیا۔ جن قائدین کے ساتھ مودی کے بغلگیر ہونے کی تصاویر سوشیل میڈیا پر وائرل ہوئیں ان میں نواز شریف، ڈونالڈ ٹرمپ اور نتن یاہو کے ساتھ اشرف غنی بھی شامل ہیں اور یہ محض اتفاق ہے کہ ان تمام کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ان چاروں حکمرانوں کا زوال محض اتفاق ہے یا پھر مودی سے ملاقات کا اثر۔ اس بارے میں علم نجوم کے ماہرین بتا پائیں گے لیکن عوام میں اس بات کو لیکر بحث جاری ہے کہ مودی کا اگلا نشانہ کون ہوگا؟۔ لوگ الگ الگ قائدین کے بارے میں اندازے قائم کرنے لگے ہیں جن سے مودی گلے مل چکے ہیں۔ کوئی مانیں یا نہ مانیں یہ حقیقت ہے کہ 2014 میں مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد جس سربراہِ مملکت نے مودی کے ساتھ گرمجوشی کا مظاہرہ کیا اور گہرے دوست بن گئے وہ مختصر عرصہ میں اقتدار سے محروم ہوگئے۔ گزشتہ 7 برسوں میں مودی کے 4 گہرے دوستوں کی حکومتیں زوال سے دوچار ہوگئیں۔ بہت سے ایسے عالمی قائدین بھی ہیں جنہوں نے بغلگیر ہونے کے باوجود دلوں کا فاصلہ برقرار رکھا اور وہ زوال سے بچ گئے۔ مودی نے پہلی حلف برداری تقریب میں سارک ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا تھا اُن میں سے آج کئی اقتدار سے باہر ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی کا پہلا نشانہ نواز شریف بن گئے۔ بن بلائے مہمان بن کر نریندر مودی اپنے دوست کی سالگرہ منانے لاہور پہنچ گئے تھے اس کے بعد نواز شریف کا اقتدار جاتا رہا۔ انہیں اب جیل اور مقدمات سے بچنے کیلئے پاکستان کے باہر پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو سے مودی کا گہرا دوستانہ تھا اور جب کبھی مودی کا تذکرہ کرتے تو نتن یاہو میرے عزیز دوست کہتے ہوئے مخاطب کرتے۔ اسرائیل سے تعلقات کے فروغ کیلئے مودی نے بہت کچھ کیا۔ دونوں ممالک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر کئی وعدے اور معاہدے بھی ہوئے۔ دونوں نے اسرائیل کے ساحلِ سمندر پر پانی میں سیاحوں کی طرح موج مستی کی تھی لیکن اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے نتن یاہو کو چھوٹی جماعتوں کے ہاتھوں شکست ہوگئی۔ امریکی صدر کی حیثیت سے ٹرمپ عوامی مقبولیت کے ساتھ اچھی خاصی حکومت چلا رہے تھے لیکن وہ مودی کی لفاظی اور اداکاری کے اسیر ہوگئے۔ مودی کو امریکہ بلاکر بڑا شوکیا اور گجرات آکر مودی کی تعریف کی۔ ٹرمپ امریکہ اور گجرات دونوں شوز میں بارہا مودی سے بغلگیر ہوتے رہے لیکن وہ انجام سے بے خبر تھے۔ مودی نے ’’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ بھی لگایا لیکن امریکہ میں نتیجہ بائیڈن کے حق میں آیا۔ تازہ ترین شکار اشرف غنی ہیں جو مودی سے گلے ملنے کے بعد اقتدار سے محروم ہونے والے چوتھے بڑے قائد ہیں۔ مودی نے 7 برسوں میں 90 سے زائد بیرونی سفر کے ذریعہ 60 ممالک کا دورہ کیا۔ وہ امریکہ، روس اور چین کے زیادہ دورے کرچکے ہیں۔ 60 ممالک میں کتنے ایسے حکمراں ہیں جو مودی کے دورہ کے بعد اقتدار سے محروم ہوگئے یہ ایک ریسرچ کا معاملہ ہے۔ جہاں تک روس اور چین کے حکمرانوں کا تعلق ہے انہوں نے مودی سے گلے ملنے کا نتیجہ پہلے ہی شائد جان لیا تھا اور وہ محض رسمی طور پر ملاقات کرتے رہے جس کے نتیجہ میں ان کا اقتدار بچ گیا۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو عالمی قائدین مودی سے ملاقات سے گھبرائیں گے۔ کوئی بھی انہیں نہ مدعو کرے گا اور نہ ہی ہندوستان دورہ کی دعوت قبول کرے گا کیونکہ اقتدار ہر کسی کو عزیز ہوتا ہے۔
جو بھی گلے لگا وہ تو گیا، یہ معاملہ صرف بین الاقوامی قائدین تک محدود نہیں رہا بلکہ ملک میں اس کی تازہ مثال راہول گاندھی ہیں۔جولائی 2018 میں مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر لوک سبھا میں مباحث جاری تھے ۔ مودی نے جب مباحث کا جواب دیتے ہوئے تقریر مکمل کی تو اسوقت کے صدر کانگریس راہول گاندھی ایوان میں مودی کی نشست تک جاکر اُن کے گلے پڑ گئے۔ اگرچہ مودی اس کے لئے تیار نہیں تھے پھر بھی راہول گاندھی نے زبردستی گلے پڑ کر نئی آفت مول لی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2019 لوک سبھا چناؤ میں اُتر پردیش میںخاندانی امیتھی لوک سبھا حلقہ سے جو کانگریس کا گڑھ تھا راہول گاندھی شکست کھاگئے اور ملک بھر میں کانگریس کو دوبارہ شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اتنا ہی نہیں راہول گاندھی کانگریس کی صدارت سے محروم ہوگئے۔ اس شکست کے بعد پارٹی میں G-23 قائدین کی ناراض سرگرمیاں شروع ہوگئیں جو قیادت کیلئے دردِسر بن چکی ہیں۔ کانگریس کے بعض قائدین کا کہنا ہے کہ جیسے ہی راہول گاندھی مودی کی طرف بڑھ رہے تھے تو کئی تجربہ کار ارکان نے انہیں روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مودی کے گلے لگنے کا نتیجہ کیا نکلے گا لیکن راہول چونکہ ابھی سیاست میں ناتجربہ کاراور یوراج کہے جاتے ہیں لہذا انہوں نے اپنے سے خود آفت کو گلے لگالیا۔ سوشیل میڈیا سے ہٹ کر افغانستان کی موجودہ صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ نریندر مودی نے اپنے دوست اشرف غنی کو مصیبت کے وقت بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ افغان صدر نے ہندوستان میں پناہ کی درخواست کی لیکن مودی نے اپنے دیرینہ دوست کی درخواست سنی اَن سنی کردی جس کے نتیجہ میں وہ متحدہ عرب امارات میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ مودی بحران کے موقع پر اشرف غنی کا ہاتھ تھامتے اور ان کی حکومت کو بچانے کیلئے ضرورت پڑنے پر فوجی کارروائی کرتے۔ امریکہ کی افغانستان سے دستبرداری کی وجوہات پر بحث کئے بغیر ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان نے افغانستان کی تعمیرِ نو کیلئے کئی ہزار کروڑ خرچ کئے لیکن وہ ملک کی عوامی منتخب حکومت کو بچانے میں غیر سنجیدہ ثابت ہوا۔ ہندوستان کی جانب سے افغانی عوام کو بطور تحفہ نیا پارلیمنٹ ہاؤز دیا گیا اور افتتاحی تقریب میں شرکت کے موقع پر مودی نے فلم ’ زنجیر‘ کا مقبول عام گیت دہرایا تھاکہ ’’ یاری ہے ایمان میرا یار میری زندگی ‘‘ لیکن مودی کیلئے محض یہ جملہ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اشرف غنی کو بھی اب احساس ہوچکا ہے کہ مودی کے نزدیک نہ ہی یار اور نہ یاری ایمان ہے نہ زندگی۔آئرن لیڈی اندرا گاندھی نے اپنے دوست شیخ مجیب الرحمن کی مدد کیلئے نہ صرف فوج کو روانہ کیا تھا بلکہ علحدہ بنگلہ دیش کی تشکیل تک خاموش نہیں رہیں۔ یہ تھا دوستی کا صحیح حق ادا کرنا لیکن افغانستان کے معاملہ میں دوست کی مدد تو کُجا مودی نے ہندوستان کے سفارتخانہ کا تخلیہ کردیا۔ یہ تمام مودی حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کا ثبوت ہے۔ موجودہ صورتحال پر بشیر بدر کا یہ شعر عالمی حکمرانوں کیلئے ایک مشورہ ہے ؎
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا