مہک کر غنچہ یہ دیتا ہے آواز
کہ گلشن اب بدلتا جارہا ہے
کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے کم از کم کانگریس کارکنوں اور قائدین میںجوش و خروش پیدا ہونے لگا ہے ۔ کانگریس کا دعوی ہے اور یہ دکھائی بھی دے رہا ہے کہ عوام کی کثیر تعداد اس یاترا کا حصہ بننے لگی ہے ۔ لوگ جوق در جوق سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اس یاترا کا حصہ بنتے ہوئے کچھ دور اس میں شامل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جس طرح سے راہول گاندھی مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ مل رہے ہیں اور ان سے بات کر رہے ہیں یہ تاثر پیدا ہونے لگا ہے کہ کانگریس پارٹی اس یاترا کے ذریعہ عوام سے اپنے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو بحال کرنے میں کچھ حد تک تو کامیاب ہوگی ۔ جس وقت راہول گاندھی نے ٹاملناڈو میںکنیا کماری سے اپنی یاترا کا آغاز کیا تھا ابتداء میں بی جے پی کی جانب سے اس پرتنقیدیںشروع ہوگئی تھیں۔ راہول گاندھی کی ٹی شرٹ کی قیمت اور ان کے جوتوں کی قیمت پر سوال اٹھائے جا رہے تھے ۔ حالانکہ یہ سب کچھ بچکانہ کوشش تھی کیونکہ کسی کے کپڑو ں کی قیمت پر سوال نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ سوال عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیںرکھتا ۔ جب کانگریس نے پلٹ وار کیا اور وزیر اعظم مودی کے دس لاکھ کے سوٹ ‘ لاکھوں روپئے مالیتی عینک اور پین کے استعمال کی تصاویر پیش کیں اور اس پر سوال کیا تو بی جے پی نے خاموشی اختیار کرنے ہی میں عافیت محسوس کی ۔ کم از کم دو مہینے بی جے پی نے اس یاترا کے تعلق سے خاموشی اختیار کی اور اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے اس یاترا کے اثرات کا جائزہ لینے میں یہ وقت صرف کیا تھا ۔ شائد بی جے پی کو بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ اس یاترا سے کانگریس پارٹی عوام سے اپنے رابطوں کو بحال کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ اسی لئے اب ایک بار پھر اس یاترا کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ابتداء میں خود وزیر اعظم نے راہول گاندھی کی یاترا میں نرمدا بچاؤ آندولن کی کارکن میدھا پاٹکر کی شمولیت پر سوال اٹھایا تھا اور بالواسطہ تنقید کی تھی ۔ اب کچھ دوسرے قائدین کی جانب سے بھی اس یاترا پر تنقیدیں کرنے کا سلسلہ ایک بار پھر سے شروع ہونے لگا ہے ۔
راہول گاندھی کی یاترا میں جہاں عام لوگ بڑی تعداد میں شریک ہو رہے ہیں وہیں سماجی جہد کار بھی اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ کئی معروف شخصیتیں اس میں شامل ہو رہی ہیں وہیں فلمی ستارے بھی یاترا میں ساتھ چلنے لگے ہیں۔ اداکارہ پوجا بھٹ کے بعد ادکار سشانت سنگھ ‘ آکانکشا پوری ‘ امول پالیکر ‘ رشمی دیسائی اور ریا سین نے بھی اس یاترا میں حصہ لیا تھا ۔ فلمی شخصیتوں کی شمولیت سے یاترا کی مقبولیت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے اس کو دوبارہ تنقید کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اب یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ فلمی شخصیتوں کو یاترا میں ساتھ چلنے کیلئے رقومات ادا کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک واٹس ایپ چاٹ کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ بی جے پی کا سوشیل میڈیا سیل اس معاملہ میں اس حد تک آگے ہے ۔ انہیں سوشیل میڈیا سیلس کے ذریعہ کئی فرضی خبریں پھیلاتے ہوئے حالات کو بگاڑا گیا ہے ۔ مسائل پیدا کئے گئے ہیں ۔ کسی کی کردار کشی کی گئی ہے اور حقیقت کی پردہ پوشی کی گئی ہے ۔ اب بھی اسی طرح کی کوشش کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ اگر واقعی و اٹس ایپ چاٹ درست ہے تو اس کو تحقیقاتی ایجنسیوں سے رجوع کرتے ہوئے پتہ چلانے کی کوشش کی جانی چاہئے کہ کس آئی پی ایڈریس سے یہ پیام بھیجا گیا ہے ۔ ایک ایسے وقت یہ تنقیدیں شروع کی گئی ہیں جبکہ یاترا عوام میں موضوع بنی ہوئی ہے اور راہول گاندھی درمیان میں کچھ وقت نکال کر گجرات میں انتخابی مہم کا بھی حصہ لے رہے ہیں۔
اب یہ یاترا مدھیہ پردیش میں داخل ہونے والی ہے ۔ مدھیہ پردیش میں بھی چند ماہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وہاں بھی کئی اہم شخصیتوں اور فلمی ہستیوں کی یاترا میں شمولیت کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے شائد بی جے پی نے اب یاترا کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے کیونکہ بی جے پی کو عوامی موڈ کا بھی پتہ چلنے لگا ہے ۔ طویل مدت میں کانگریس کو ملنے والی تائید ووٹ میں تبدیل ہوگی یا نہیں یہ ابھی سے کہا نہیں جاسکتا لیکن بی جے پی اس پر اندیشوں کا شکار ضرور دکھائی دینے لگی ہے ۔ واقعی اگر رقومات ادا کی جا رہی ہیں تو تمام حقائق کو تحقیقات کے ذریعہ منظر عام پر لانا چاہئے جبکہ مرکز میں بی جے پی کی ہی حکومت ہے ۔ محض الزامات پر یقین کرنا مشکل ہوگا۔