بھارت جوڑو یاترا ‘ یوپی اپوزیشن کی ہچکچاہٹ

   


کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے ملک کی کئی ریاستوں میں اپنا سفر مکمل کرلیا ہے اور یہ دہلی پہونچ چکی ہے ۔ ٹاملناڈو میں کنیا کماری سے شروع ہو کر یاترا کیرالا ‘ کرناٹک ‘آندھرا پردیش ‘ تلنگانہ ‘ مہاراشٹرا ‘ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور ہریانہ سے ہوتی ہوئی دہلی پہونچ چکی ہے۔ دہلی میں پارٹی کا ایک بڑا جلسہ بھی ہوا ۔ یاترا 9 دن کے بریک کے ساتھ دہلی میں رکی ہوئی ہے اور دہلی سے وہ اترپردیش کا رخ کرنے والی ہے ۔ اترپردیش ملک کی سیاسی اعتبار سے سب سے اہمیت کی حامل ریاست ہے ۔ یہاں کے حالات بھی انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ اترپردیش میں بی جے پی کو دوسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ راہول گاندھی کی یاترا کے تعلق سے سیاسی حلقوں میں قیاس آرائیاں شروع ہوچکی ہیں۔ یہ یاترا کا اترپردیش میں پہلا اثر کہا جاسکتا ہے ۔ حالانکہ کانگریس نے اس یاترا کیلئے سماجوادی سربراہ اکھیلیش یادو ‘ بی ایس پی سربراہ مایاوتی اور آر ایل ڈی لیڈر جئینت چودھری کو یاترا کیلئے مدعو کیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اترپردیش کے یہ قائدین اس یاترا میں حصہ لینے کیلئے پس و پیش اور ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ یہ قائدین کسی بھی عوامی فورم میں کانگریس کے ساتھ کھڑے ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اکھیلیش یادو کانگریس سے دوری برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس یاترا میں شرکت کرنے سے قبل اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کانگریس کو ان سے زیادہ تائید و حمایت نہ مل جائے ۔ اکھیلیش یادو اترپردیش میں سماجوادی پارٹی ہی کو بی جے پی کی واحد متبادل برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کسی اور جماعت کو زیادہ عوامی تائید نہ ملنے پائے ۔ سماجوادی پارٹی کی طرح بی ایس پی سربراہ مایاوتی کی بھی اس یاترا میں شرکت کا امکان نہیں ہے ۔ بی ایس پی کو حالانکہ ہر انتخابات میں زبردست نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن مایاوتی کے تیور میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ مایاوتی حالیہ عرصہ میں اپنے بیانات میں کانگریس ہی کو زیادہ نشانہ بنا رہی ہیں۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ مایاوتی بھی راہول گاندھی کی اس یاترا میں شرکت نہیں کریں گی ۔
جہاں تک آر ایل ڈی کا سوال ہے تو اس نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ بھارت جوڑو یاترا کی حمایت کرتی ہے ۔ آر ایل ڈی نے راجستھان میں کانگریس حکومت کی تائید بھی کی ہے ۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سربراہ جئینت چودھری کی پہلے سے مصروفیات طئے ہیں اس لئے وہ اس یاترا میں شرکت نہیں کر پائیں گے ۔ جئینت چودھری کی پارٹی نے تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ کسی اور لیڈر کو بھی یاترا میں شرکت کیلئے بھیجا جائیگا یا نہیں ۔ اس طرح یہ واضح ہو رہا ہے کہ اترپردیش کے سیاسی قائدین میںاس یاترا کے تعلق سے چہ میگوئیاں ضرور ہیں لیکن وہ کھل کر اس کی تائید یا مخالفت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کو سب سے بڑی جماعت کے طور پر پیش کرنے سے یہ علاقائی جماعتیں گریز کرنا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یاترا کا حصہ بننے سے گریزکر رہی ہیں۔ جہاں تک انتخابی پہلو کی بات ہے تو اس یاترا سے کانگریس عوام سے رابطے بحال کرنے میں ضرور کامیاب ہو رہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ راہول گاندھی کو کانگریس آئندہ اپوزیشن امیدوار کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے ۔ کانگریس نے اب تک اس یاترا کے سیاسی امکانات سے انکار کردیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف ملک سے نفرت کا خاتمہ کرتے ہوئے محبوت کا پیام عام کرنا چاہتی ہے ۔ اس کے ذریعہ کانگریس پارٹی کے عوام سے رابطے بحال ہو رہے ہیں اور پارٹی اپنے کیڈر اور کارکنوں کے حوصلے بلند کرنا چاہتی ہے ۔
اترپردیش کے قائدین کی عدم شرکت پر کانگریس نے ابھی کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے اور ابھی انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے ۔ پارٹی کو امید ہے کہ یاترا کے آغاز تک کچھ قائدین کی شرکت کا امکان بن سکتا ہے ۔ اترپردیش جیسی وسیع ریاست میں اپوزیشن کے مابین اتحاد ضروری ہے ۔ گذشتہ سات آٹھ برس میں جو بھی اتحاد کے تجربہ ہوئے وہ ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ بی جے پی نے عوامی تائید برقرار رکھی ہے ۔ بی جے پی کو آئندہ انتخابات میں روکنے کیلئے اترپردیش میں اس کی نشستوں کو کم کرنا ضروری ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب سنجیدہ اپوزیشن جماعتوںمیںاتحاد ہو ۔ اتحاد کی پہل یاترا میں شرکت سے ہوسکتی ہے ۔