بھاگوت جی ! دوغلاپن ٹھیک نہیں

   

راج موہن گاندھی
کئی ایسے لوگ جو میری عمر کے ہیں یا پھر مجھ سے کچھ چھوٹے ہیں، ان لوگوں نے 1942-43ء میں ایک بعد ایک ریلیز کی گئی دو فلموں ’’بھارت ملاپ‘‘ اور ’’رام راجیہ‘‘ ضرور دیکھی ہوں گی۔ اس وقت میری عمر 7 برس کی تھی۔ جب میں نے ’’بھارت ملاپ‘‘ فلم دیکھی تھی، تب میری آنکھوں سے آنسوں رواں ہوگئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میں فلم دیکھتے ہوئے اپنی دل کی گہرائیوں سے رو رہا ہوں۔ جب کہ فلم ’’رام راجیہ‘‘ نے مجھے بہت زیادہ مایوس کیا کیونکہ میں نے اس فلم سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کررکھی تھی۔ آج میں اس بات پر رو رہا ہوں کہ میرا ہندو انڈیا کہاں گیا ہے۔ ہماری حکومت تو ہرش مندر جیسی شخصیت کے خلاف بھی دھاوے کرسکتی ہے۔ او میرے خدا! ہرش مندر کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے کورونا سے متاثر ہونے کے باوجود پرہجوم جنرل وارڈ میں علاج کروانے پر اصرار کیا تھا تاکہ انہیں بھی جنرل وارڈ میں عام مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کو ہونے والے تلخ تجربات کا تجربہ ہوسکے۔ جہاں تک ہرش مندر کا سوال ہے، انہوں نے اپنا ایک شاندار آئی اے ایس کیریئر گذارا ہے۔ ان کے اعلیٰ سطحی روابط ہیں اور ان روابط کے ذریعہ وہ چاہتے تو اپنی پسند کے اسپتال کے کسی بھی کمرے کا دروازہ اپنے لئے کھلوا سکتے تھے۔ ہرش مندر کے جرائم میں سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ نفرت پر مبنی جرائم کے عادی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے بے قصور انسانوں کی جھونپڑیوں، ان کے شکستہ مکانوں کے دروازے کھٹکاتے ہوئے غمزدہ لواحقین کے ساتھ انہوں نے وقت گزارا تھا، ان کی دلجوئی کی تھی۔ ان میں قانون کے تئیں اعتماد پیدا کیا تھا۔ ہرش مندر کا قصور یہی تھا کہ انہوں نے فرقہ پرستوں کے بے قصور لوگوں پر مظالم کو صرف آنکھوں سے دیکھا ہی نہیں بلکہ زبان سے اس کی مذمت کرتے ہوئے ان کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش بھی کی۔ دوسری طرف ہرش مندر نے مقتول افراد کے غم زدہ رشتہ داروں تک پہنچ کر انہیں یہ بتایا کہ ہم بھی آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں نام نہاد قوم پرستوں کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ کوئی بھی چیز نہیں ، کوئی درخواست نہیں، کوئی انتباہ نہیں۔ ان خودساختہ قوم پرستوں کے قدم آگے ہی بڑھتے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے چیف منسٹر اپنی ریاست کے مسلمانوں پر برسرعام یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کا راشن چرایا ہے اور ان کا راشن اپنے گھر لے گئے ہیں۔ ہندو کا مطلب عیسائی یا مسلم نہیں ہوتا۔ اگر ہندو انڈین کے مساوی ہے تو پھر ہندو مہا سبھا اور ہندو راشٹرا یا پھر ہزاروں کی تعداد میں قانونی اور غیرقانونی شکل میں موجود اس لفظ کے کیا معنی بنتے ہیں۔ نہ صرف ہندوستان میں رہنے والے بلکہ دنیا میں کہیں پر بھی رہنے والے ہندوؤں کو کیا کہا جائے گا۔ بھاگوت کو یہ جان لینا چاہئے کہ دوغلے پن سے انسان اعتماد کھو دیتا ہے۔ اگر وہ جان جائیں کہ وہ ہندوستان کے غیرہندوؤں سے کیا چاہتے ہیں تو یقینا وہ سکھوں کے اس بیان کو جانتے ہیں کہ ہم ہندو نہیں۔ ویسے بھی آپ کو پھر ایک بار یاد دلا دوں کہ 1956ء میں بابا صاحب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ان کے لاکھوں حامیوں نے برسر عام ہندوازم کو ترک کرتے ہوئے بدھ ازم کو قبول کیا تھا۔ کیا اس کو بھی انڈین سمجھیں گے۔ ایک ہی آباء و اجداد کی اولاد ہونا بعض موقع یا بعض اداروں میں خوشی کا باعث ہوسکتا ہے لیکن اس معاملے میں خوشگوار ماحول کی کوئی طمانیت نہیں ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کا احترام کرلیں تو ہماری باہمی محبت اس دنیا کو بہت پرامن بنائے گی ورنہ حالات اس کے برعکس ہوں گے۔ جہاں تک مذہبی بنیادوں پر امتیاز برتے جانے کا سوال ہے ، ہمارے دستور نے پرزور انداز میں مذہبی بنیادوں پر امتیاز برتے جانے کو ممنوع قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں دستور کی دفعہ 15 پرزور انداز میں کسی بھی ہندوستانی کے ساتھ مذہب، نسل، ذات پات، جنس یا مقام پیدائش کی بنیاد پر امتیاز برتے جانے سے منع کرتی ہے۔ دستور نے کسی کی بھی نسلی برتری کو مسترد کردیا ہے۔ آپ کو بتا دوں کہ ہندوستانی مساوی ہیں ہندو شہری کا حساب کتاب پیش کرنے والے ہندو دائیں بازو کے عناصر وقفہ وقفہ سے یہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان اور عیسائی یہ تسلیم کرلیں کہ ان کے آباء و اجداد ہندو تھے ، تب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں : ’’ہم دراصل یہ یقین کرسکتے ہیں کہ آج کی ہندوستانی آبادی کی اکثریت کے آباء و اجداد ہندوستانی تھے‘‘، جن میں ہندو، بدھسٹ ، جین یا کوئی اور بھی شامل ہے۔ موہن بھاگوت کو یہ جان لینا چاہئے کہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنا اور انہیں یہ بتانا کہ آپ تمام ہندو ہو ، اس طرح کی سوچ سے صرف مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ آپ دوسروں سے یہ کیوں کہتے ہو کہ آپ کیا ہیں؟ مثال کے طور پر جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ہم انہیں نام دے سکتے ہیں اور نام دینا بھی ضروری ہے۔ بچوں کو ہی نہیں بلکہ ہم اپنے پالتو کتوں اور بلیوں کو بھی نام دیتے ہیں۔ ایک ایسا بھی وقت تھا جب غلاموں اور لونڈیوں کو بھی نام دیئے جاتے ہیں۔ ایسے میں خود اپنے اور دوسروں کیلئے احترام کا جذبہ رکھنے والے بالغ افراد یہی چاہتے ہیں کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ کیا ہیں اور انہیں کیا کہہ کر بلایا جانا چاہئے۔ ایسے میں میں یہی کہنا چاہوں کہ ڈیئر مسٹر بھاگوت! مسلمانوں اور عیسائیوں اور کسی سے بھی یہ مت کہئے کہ آپ کون ہو اور کیا ہو۔ مسلمان بھی ہندو ہیں، یہ کہنے کے بجائے آپ اپنے حامیوں اور معتقدین سے یہ کہنے کیلئے کہیں کہ مسلمان بھی ہمارے بھائی بہن ہیں، عیسائی بھی ہمارے بھائی ، بہن ہیں۔ اگر آپ کے بھکت یہ کہیں گے تو اس سے ملک کو فائدہ ہوگا اور ایک چیز یاد رکھئے مسٹر بھاگوت! آپ یقینا گوسوامی تلسی داس کی رام چرت مانس کے ایک اہم گوشے کے بارے میں اچھی طرح واقف ہیں جہاں ویبھوشن راما پر اس بات کیلئے تنقید کرتے ہیں کہ راون کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں راما کے خلاف ان کے پاس رتھ نہیں ہے۔ اس وقت راما نے کہا تھا دوست سنو ! ایسی رتھ جو کامیابی کا باعث بنتی ہے وہ الگ قسم کی ہے۔ شجاعت و بہادری اور صبر و تحمل اس کے پہیے ہیں۔ سچائی اور اس پر عمل اس کی مضبوطی ہیں۔