بھیما کورے گاؤں۔11کے سب سے کم عمر جہدکار مہیش راؤت نے اپنی ایک او رسالگرہ جیل میں منائی

,

   

یلغار پریشد میں تشدد کو اکسانے کے الزام میں 2018جون کو راؤ ت کو گرفتار کیاگیاتھا
حیدرآباد۔ بھیما کورے گاؤں تشدد معاملے میں ملزم سب سے کم عمر مہیش راؤت یکم جولائی 2020‘ چہارشنبہ کے روز تالوجی سنٹرل جیل میں 33سال کے ہوگئے ہیں۔

مہارشٹرا کے گڈچیرولی ضلع سے تعلق رکھنے والے قبائیلیوں حقوق کے جہدکار کو یواے پی اے کے سخت دفعات کے تحت 6جون2018کے روز گرفتار کئے جانے کے بعد سے انہوں نے جیل میں اب تک ڈھائی سال سے زائد عرصہ گذار دیاہے۔

مہیش راؤت ’بھیما کورے گاؤں۔11“ میں سے ایک ہیں یہ وہ اصطلاح ہے جس کا استعمال 11معروف مصنفین‘ وکلاء‘ صحافیوں اور انسانی حقوق کے جہدکاروں

بشمول سدھا بھردواج‘ رونا ویلسن‘ گوتم نولکھا‘ ورا ورا راؤ‘ سریندر گاڈلنگ‘ شوما سین‘ ارون فیریرا‘ سدھیر دھاوالے‘ ورون گونزلویساور آنند تیلتومڈے کے خلاف استعمال کی گئی ہے‘

ارٹیکل 14کے مطابق جنھیں مبینہ طور پر ”بھڑکاؤ پریزٹینشن تقریروں“ کے ذریعہ فرقہ وارانہ نفرت او رتشدد بھڑکانے کے علاوہ ماؤسٹوں سے تعلقات کا مورد الزام ٹہرایاگیاہے۔

ارٹیکل 14کے بموجب ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سماجی سائنس سے راؤت نے ڈگری حاصل کی ہے اور وہ وزیر اعظم دہی ترقی (پی ایم آرڈی) پروگرام کے فیلو بھی ہیں کو سب سے پہلے وزیراعظم مودی کے خلاف قتل کی پہل کی سازش تیار کرنے اور نفرت آنگیز تقاریر کرنا‘ ای میلس اور پمفلٹوں کے روانہ کرنا جس کی وجہہ سے 2018جنوری میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے تھے کے ضمن میں گرفتار کیاگیاتھا۔

اب دوسال قید میں گذارنے کے بعد مہیش جو آنتوں کے امراض کا شکار ہیں بغیر کسی کیس کے جیل میں بند ہیں۔

ویستھاپن ویرودھی جن ویلاس اندولن(وی وی جے وی اے) کے ایک کوکنونیر اور بھارت اندولن کے ایک رکن مہیش کی گرفتاری غلط ہے‘ اس بات کا دعوی ان کے فیملی ممبرس او ردوست بارہا کرتے آرہے ہیں۔

سال2018میں سابق پی ایم آرڈی پروگرام کے ساتھیوں نے اسکورل ڈاٹ این کو بتایاکہ”ان کے گھر پر دھاوے اور انہیں تحویل میں لینے پچھلے کچھ ماہ سے عام ہوگیاتھا اس کی وجہہ بھارت جن اندولن کے ساتھ ان کی انتھک محنت تھی۔

اس پولیس کی اس بے رحمانہ کاروائی کو ریاست میں دبے کچلے لوگوں کے خلاف ذات پات کے بڑھتے واقعات پر ریاستی حکومت کے ردعمل کے طور پر دیکھتے ہیں“۔

اس وقت انہوں نے کہاکہ راؤت نے نہ تو یلغار پریشد میں شرکت کی تھی اور نہ ہی وہ انتظامی کمیٹی کا حصہ تھے۔

اس سال ان کی بہن مونالی نے ارٹیکل14سے بارکتے ہوئے ان پر درج مقدمات کے متعلق بتایا۔

مونالی نے کہاکہ ”درحقیقت گرفتاری کے بعد انہوں نے بتایاتھا کہ مذکورہ پولیس ان سے بھیما کورے گاؤں کے متعلق ایک سوال بھی نہیں کیا‘ گڈچیرولی میں کانکنی پراجکٹوں کے متعلق ہی بات کی ہے“۔

گڈچیرولی میں قبائیلوں کے ساتھ انصاف کے لئے راؤت کی جدوجہد ان کے دل کے کافی قریب ہے۔گڈچیرولی کے جنگلات حکومت ہند او ر محکمہ جنگلات کے پاس ہیں۔

حالانکہ مذکورہ جنگلات‘ معاشی‘ ماحولیاتی‘ ثقافی اور سماجی طور پر ان قبائیلیوں کے کافی اہمیت کے حامل ہیں‘ جس پر ان کے گذر بسر کا انحصار ہے‘ انتظامیہ کے ہاتھوں وہ استحصال کا شکار ہیں جس نے کانکنی کے لئے ان جنگلات کو لیز پر دیدیا ہے۔

ارٹیکل14میں لکھا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ان کے حقوق کے متعلق معلومات فراہم کرنے کے مقصد سے گرما سبھا کی شروعات کرتے ہوئے ایک کمیونٹی آرگنائزر کا کام شروع کیاتھاتاکہ کمیونٹی کے اراضی جو جنگلات پر مشتمل ہے

اس کی حفاظت کاکام کیاجاسکے‘ اور لوگوں پر زوردیا کہ وہ فارسٹ رائٹس ایکٹ(ایف آر اے) کے تحت جنگلات انتظام اور اس کی حفاظت کے لئے اپنے حقوق کا استعمال کریں۔

راؤت نے ان لوگوں ان کمیونٹی کے لوگوں کی ایف آر اے حقوق کی حفاظت کے لئے مدد کی تاکہ جنگلات کی پیدواری کی مارکٹ اور بھانسی وتنڈو کی منڈی کو بچایاجاسکے

جس پر محکمہ جنگلات او راونچی ذات والے گتہ داروں کا قبضہ ہے۔وہ مہیش ہی تھے جنھو ں نے گرام سبھا کو اس بات کے لئے راغب کروانے میں انتھک جدوجہد کی کہ کانکنی کے لئے جنگلات کی اراضی کو

کسی کارپوریٹ کے حوالے کرنے سے قبائیلیوں کے حقوق پامال ہوجائیں گے۔انہوں نے تمام قبائیلیوں کو سیکھا یا کہ حکومت کے سخت موقف کے خلاف جمہوری جدوجہد کریں۔

سال2017میں راؤت اور نیما پاٹھک برومی نے سورجاگڈ‘ ایٹاپلی اور بھامر گڑ کے لوگوں کے مشکل کی ساتھ میں اشاعت کی تھی۔

ایک ویڈیو میں قبائیلی لیڈر اورضلع پریشد ممبر سائنو معصوم گوٹا نے مہیش راؤت کس طرح انتظامیہ کے ہاتھوں قبائیلیوں کی آواز اٹھانے پر پریشان ہورہے ہیں

اس کے متعلق بات کی تھیراؤت کے الفاظ کو یاد کرتے ہوئے ان کی بہن نے ارٹیکل14کو بتایا کہ ”میرے نوجوانوں کے ذریعہ وہ ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے’تم آگے کیاکرنے کا ارادہ کررہے ہیں؟‘

جب میں کہتی میں یہاں پر تعلیم حاصل کروں گی یا پھر یہاں پر ملازمت کروں گی‘ وہ کہتے تھے یہ تمام ٹھیک ہے مگر تم سوسائٹی کی مدد کے لئے کیاکریں گے؟ ایسا کچھ کریں جب تم چلے جائیں تو لوگ تمہیں یاد کریں“