وفا کی راہ میں ملتے ہیں بے وفا کتنے
وفا کی راہ میں یہ سوچتا نہیں کوئی
بہار اسمبلی انتحابات کے نتائج
بہار کے اسمبلی انتخابات اور نتائج کے درمیان بی جے پی ۔ جنتادل یو اتحاد کے تعلقات کو زبردست دھکہ لگتا دکھائی دے رہا ہے ۔ دیرینہ رفاقت کو ایک جھٹکے میں ختم کردینا سیاسی خود غرضی کی علامت بھی ہوسکتی ہے ۔ بہار کے انتخابات میں بڑے پیمانہ پر تبدیلی کی لہر نے مرکز کی مودی حکومت کو بہت بڑا سبق سکھایا ہے ۔ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرنے میں ناکام مودی حکومت نے اچانک لاک ڈاؤن لگا کر اس ملک کے لاکھوں کروڑہا غریب مزدوروں کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا تھا۔ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ بہار کا مزدور طبقہ پریشان ہوا ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں روٹی روزی کی تلاش میں ترک وطن کرنے والے لاکھوں افراد لاک ڈاؤن میں اپنے وطن واپس ہونے کے لیے ہزاروں میل پیدل چل کر آئے تھے ۔ اب بہار کے انہی مزدوروں نے بی جے پی ۔ جنتادل یو کو اپنا فیصلہ سنایا ہے ۔ بہار کے یہ انتخابات دلچسپی سے خالی نہیں تھے ۔ سارا ملک یہ دیکھنے کا متمنی تھا کہ لاک ڈاؤن کے بعد عوام کا فیصلہ کیا آئے گا ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت نے من مانی کرتے ہوئے عوام کو جس قدر پریشان کیا تھا اس پر رائے دہندہ اپنا کیا ردعمل ظاہر کرے گا ۔ نوٹ بندی کے چار سال بعد مودی حکومت کو عوام کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ عوام کی بڑی تعداد نے نوٹ بندی کے فیصلہ کو برداشت کیا تھا لیکن لاک ڈاؤن کے فیصلہ نے غریبوں کی کمر توڑ دی تھی ۔ اس لیے بے روزگاری کا موضوع ہی بہار اسمبلی انتخابات کا اصل ہتھیار ثابت ہوا ۔ اسمبلی انتخابات کے تیسرے مرحلے کی رائے دہی کے فوری بعد جاری کردہ اگزٹ پولس کے مطابق آر جے ڈی کو اقتدار ملنے والا ہے ۔ کانگریس زیر قیادت آر جے ڈی دائیں بازو کے اس مہاگٹھ بندھن کو اکثریتی ووٹ ملے ہیں تو یہ عوام کی مخالف حکمرانی رائے کا ثبوت ہے ۔ قابل ذکر بات ہے کہ نوٹ بندی کے چار سال مکمل ہونے کے بعد بہار کے نتائج کا رخ سامنے آیا ہے ۔ اس فیصلہ سے جہاں ہندوستان کا غریب کسان ، مزدور اور چھوٹے دوکانداروں پر کاری ضرب پڑی تھی وہیں عوام نے حکومت کے غلط فیصلوں کا جواب دینے کے لیے انتخابات تک صبر و تحمل سے کام لیا ۔ بہار کے عوام کے فیصلہ کی ستائش کی جانی چاہئے ۔ بہار کی سیاست بھی کئی نشیب و فراز کا شکار ہوئی ہے ۔ یہاں کا سیاستداں سب سے زیادہ بدعنوان اور داغدار ہونے کے باوجود عوام اس کو منتخب کرتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات 2020 میں بھی کئی جرائم پیشہ افراد نے انتخاب لڑا ہے ۔ ریاست بہار کے 7 کروڑ رائے دہندوں نے جس کسی کو بھی ووٹ دیا ہے ان کا یہ ووٹ بہار کی سیاست کا رخ بدل دے گا ۔ اس مرتبہ نوجوان قیادت کی شکل میں آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو مضبوطی سے ابھرے ہیں ۔ ملک میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد بہار کا یہ پہلا سب سے بڑا الیکشن تھا ۔ تین مرحلے میں کروائی گئی رائے دہی پرامن رہی اور الیکشن کمیشن قابل مبارکباد ہے کہ اس نے بہار میں پرامن رائے دہی کو یقینی بنانے کے لیے موثر انتظامات کئے تھے ۔ اس مرتبہ انتخابات میں اہم امیدواروں کو منطقی چیلنجس کا سامنا ہے ۔ ان انتخابات میں اپوزیشن کے پاس کوئی مضبوط قد آور لیڈر نہیں تھا ۔ انتخابی مہم چلانے کے لیے صرف چند قائدین ہی تھے ۔ آر جے ڈی لیڈر لالو پرساد یادو چارہ اسکام اور دیگر کیسوں میں جیل میں محروس ہیں ۔ جب کہ دوسرے بڑے لیڈر شرد یادو ہیں جو خرابی صحت کی وجہ سے زیر علاج ہیں ۔ ایک اور اہم دلت لیڈر رام ولاس پاسوان کی بھی حالیہ موت سے اپوزیشن کے اندر بڑا سیاسی خلا پیدا ہوا ۔ اس کے باوجود آر جے ڈی کے نوجوان لیڈر تیجسوی یادو کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے مہاگٹھ بندھن کی باگ ڈور سنبھالی اور اس مہاگٹھ بندھن کو عوام کا پسندیدہ اتحاد بنانے میں اہم رول ادا کیا ۔ چیف منسٹر نتیش کمار کو انتخابات کے آنے والے نتائج کو تسلیم کرنا ہوگا کیوں کہ ان کی دیرینہ حلیف پارٹی بی جے پی کا ہی یہ دیرینہ منصوبہ ہے کہ اس کے سامنے کوئی زیادہ دن تک قائم نہ رہے لیکن بہار کے عوام نے دونوں ہی بی جے پی اور نتیش کمار کو اپنا فیصلہ سنادیا ہے ۔۔
