میں چاک کرکے رہوں گا یہ سینۂ ظلمت
میں عزم لے کے اٹھا ہوں دیئے جلانے کا
بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کا عمل اب ایک طرح سے عدالتی ہدایات کے تابع ہوگیا ہے کیونکہ ابتداء سے الیکشن کمیشن نے عدالت کے مشوروں کو قبول کرنے کی بجائے اپنے من مانی انداز کو اختیار کیا تھا ۔ عدالت نے اس سے قبل بھی الیکشن کمیشن کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ ووٹر شناختی کارڈ ‘ راشن کارڈ اور آدھار کارڈ کو دستاویزات کے طور پر قبول کرے ۔ تاہم الیکشن کمیشن نے یہ واضح کردیا تھا کہ ایسا نہیں کیا جاسکتا ۔ سارے عمل کا جائزہ لینے اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ظاہر کی جانے والی تشویش اور عدالت میں موثر پیروی کو دیکھتے ہوئے عدالت نے واضح ہدایات جاری کردی ہے کہ الیکشن کمیشن کو اب ووٹر لسٹ میں ناموں کی شمولیت کیلئے آدھار کارڈ کو لازمی طور پر قبول کرنا ہوگا ۔ یہ ایک طرح سے الیکشن کمیشن کو بڑا جھٹکا کہا جاسکتا ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتیں لگاتار یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے آدھار کارڈ کو دستاویز کے طور پر قبول کیا جائے ۔ کمیشن اپنے ہی زعم میں مبتلا تھا اور وہ کسی کے مشورہ یا اپیل کو قبول کرنے تیار نہیں تھا ۔ عدالت نے کہا کہ جو نام الیکشن کمیشن کی جانب سے خارج کردئے گئے ہیں وہ لوگ یا تو آن لائین یا پھر شخصی طور پر درخواست داخل کرسکتے ہیں۔ یہ لوگ الیکشن کمیشن کے طلب کردہ 11 دستاویزات پیش کریں یا پھر وہ محض آدھار بی پیش کرسکتے ہیں۔ عدالت نے یہ ہدایت دی ہے کہ یکم ستمبر تک یہ ادخال ہوجانا چاہئے ۔ عدالت کی یہ ہدایت ان لاکھوں افراد کیلئے راحت کا موجب بن رہی ہے جن کے نام الیکشن کمیشن نے فہرست سے خارج کردئے تھے ۔ اب ان تمام لوگوں کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ اپنے آدھار کارڈ کے ذریعہ دوبارہ اپنے نام شامل کروائیں۔ عدالت کی اس ہدایت کے نتیجہ میں فہرست رائے دہندگان میںلاکھوں نام شامل کئے جاسکتے ہیں ۔ چونکہ آدھار بھی حکومت کی جانب سے جاری کیا جانے والا ہی ایک دستاویز ہے اور اسی کے ذریعہ دوسرے کئی دستاویزات تیار کئے جاسکتے ہیں تو آدھار کو قبول کیا جانا ایک فطری بات ہے جسے الیکشن کمیشن قبول نہیں کر رہا تھا ۔
یہ استدلال پیش کیا جا رہا تھا کہ آبادی سے زیادہ آدھار کارڈ بنائے گئے ہیں۔ یہ استدلال خود بی جے پی کے کئی قائدین کی جانب سے کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آدھار کارڈ کی اجرائی کیلئے جو ادارہ کام کرتا ہے وہ بھی مرکزی حکومت کے تحت ہی آتا ہے ۔ ایسے میں اگر آدھار کارڈز آبادی سے زیادہ جاری کردئے گئے ہیں تو یہ بھی انتہائی تشویش کی بات ہے اور اس کی ذمہ داری بھی مرکز کی نریندر مودی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ حکومت اس معاملے میں کئی محاذوں پر خود اپنی ہی ناکامی کا اعتراف کر رہی ہے ۔ حکومت ایک طرف کہتی ہے کہ کئی بنگلہ دیشی اور روہنگیا ملک میں گھس آئے ہیں۔ گیارہ سال سے ملک کی سرحدات کی حفاظت کا ذمہ بی جے پی حکومت کے ہاتھ میں ہے تو پھر یہ در انداز کس طرح سے ملک میں داخل ہوئے ہیں ؟۔ اس کا جواب بی جے پی کو دینا چاہئے ۔ اگر یہ لوگ کسی طرح گھس بھی آئے ہیں تو پھر مودی حکومت نے ان تمام کو نکال باہر کیوں نہیں کیا ؟۔ آدھار کارڈ اگر آبادی سے زیادہ پائے گئے ہیں تو پھر ان کی اجرائی کس طرح سے ہوئی ہے ۔ اس کا جواب بھی بی جے پی کو دینا چاہئے ۔ محض الیکشن کمیشن کے عمل کو جائز قرار دینے کی کوشش میں بی جے پی اپنی ہی ناکامیوں کا اعتراف کر رہی ہے اور یہ بات اسے سمجھ نہیں آرہی ہے ۔ ووٹر لسٹ پر نظرثانی کا کام یقینی طور پر کیا جانا چاہئے تاہم اس کے کسی طرح کے سیاسی عزائم نہیں ہونے چاہئیں اور نہ ہی اس میں کسی کو مداخلت کی کوشش کرنی چاہئے ۔
بہار میں عین الیکشن سے قبل جس طرح سے یہ مہم شروع کی گئی ہے اس کے نتیجہ میں بھی کئی سوال پیدا ہونے لگے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ کئی گوشوں نے اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے یہ ہدایت جاری کردی ہے کہ آدھار کارڈ کو دستاویز کے طور پر قبول کیا جائے تو اب سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان افراد کی مدد کریں جن کے نام خارج کردئے گئے ہیں۔ عوام کی مدد کرتے ہوئے حقیقی رائے دہندوں کے نام بہرصورت ووٹر لسٹ میں شامل کروانے کیلئے ان جماعتوں کو بھی حرکت میں آنے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوری عمل کی اہمیت اور افادیت برقرار رکھی جاسکے ۔