اترپردیش کے بعد سیاسی اعتبار سے دوسری سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ریاست بہار میں اسمبلی انتخابات کیلئے اب چند ماہ ہی رہ گئے ہیں اور سیاسی جماعتیں ایک طرح سے اپنی تیاریوں میں جٹ گئی ہے ۔ حالانکہ اس تعلق سے فیصلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کیا جائیگا اور اس میں کورونا وارس کی صورتحال کو بھی ذہن نشین رکھا جائیگا لیکن سیاسی جماعتوںکی تیاریاں اپنے طور پر شروع ہوچکی ہیں۔ بہار میں نتیش کمار کی جے ڈی یو اور بی جے پی کے درمیان اتحاد ہے اور مخلوط حکومت چلائی جا رہی ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ نتیش کمار بی جے پی سے دوستی کرکے اس کے ہنر سے بھی استفادہ کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہار میں راشٹریہ جنتادل کے پانچ ارکان قانون ساز کونسل سے انحراف کروایا گیا ہے اور ان ارکان نے اب جے ڈی یو میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ یہ ایک طرح سے ریاست میں سیاسی ماحول کو جے ڈی یو ۔ بی جے پی کے حق میں سازگار کرنے کی کوشش ہے اور عوام کو یہ تاثر دینا بھی اس کا مقصد ہے کہ جے ڈی یو کے حق میں ایک لہر سی چل رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست میںحالات جو بظاہر دکھائی دے رہے ہیں وہ جے ڈی یو کے حق میں نہیں ہیں۔ خاص طور پر مائیگرنٹس کے مسئلہ پر عوام میں ناراضگی ہے اور حد تو یہ ہے کہ خود جے ڈی یو کی حلیف جماعت لوک جن شکتی پارٹی کا بھی احساس ہے کہ مائیگرنٹس کے مسئلہ سے بہتر انداز میں نمٹا جاسکتا تھا اور حکومت کی غیر موثر حکومت عملی اور نامناسب اقدامات کی وجہ سے عوام میںناراضگی پائی جاتی ہے ۔ لوک جن شکتی پارٹی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر بہار میں قیادت میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جائے اور بی جے پی اس تعلق سے کوئی فیصلہ کرے تو لوک جن شکتی پارٹی اس کی حمایت کریگی ۔ بی جے پی نے تاہم اس تعلق سے وضاحت کردی ہے کہ ریاست میں نتیش کمار کی قیادت ہی میں انتخابات لڑے جائیں گے اور خود بی جے پی کے کیڈر کو بھی اس تعلق سے کسی طرح کے شکوک و شبہات کا شکار نہیں رہنا چاہئے ۔ یہ در اصل بی جے پی کی جانب سے اقتدار میں حصہ داری کو کسی بھی قیمت پر برقرار رکھنے کی مصلحت ہی ہے ۔
ہندوستان کی تقریبا تمام ریاستوں میں یہ روایت رہی ہے کہ جب کبھی وہاں انتخابات کا موسم آتا ہے سیاسی جماعتوں میں توڑ جوڑ اور انحراف کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ خاص طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ برسر اقتدار جماعت سے انحراف زیادہ ہوتا ہے اور لوگ اقتدار کی خاطر دوسری جماعتوں میں شرکت اختیار کرتے ہیں۔ یہ در اصل نوشتہ دیوار ہوتا ہے جسے پڑھ کر اس طرح کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ لیکن بہار میں ایسے حالات پیدا ہونے سے قبل ہی جے ڈی یو نے بی جے پی کی دوستی سے ایک طرح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن جے ڈی یو میں پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس نے پانچ ارکان قانون ساز کونسل کو توڑ کر اپنی صفوں میں شامل کرلیا ہے ۔ جس طرح سے یہ قائدین پارٹی سے انحراف کرتے ہیں اور برسر اقتدار جماعت میں انہیں فوری جگہ مل جاتی ہے اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت کی سطح پر اور برسر اقتدار جماعت کی حمایت اور سرپرستی کے بغیر اس طرح کے اقدامات ممکن نہیں ہوسکتے ۔ اس طرح کے اقدامات در اصل انتخابات سے قبل رائے عامہ پر اثر انداز ہونے اور اسے اپنے حق میں ہموار کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ یہ اقدامات ااس بات کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت اور برسر اقتدار جماعت اپنی کارکردگی اور اقدامات کے بل پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے تعلق سے پر اعتماد نہیں ہیں اسی لئے ایک فرضی ماحول تیار کرنے اور ہوا کھڑا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور بہار میں بھی یہی کچھ کیا گیا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ بہار میں جو کچھ ہوا ہے وہ پہلی وقت ہوا ہو یا پھر یہ صرف بہار میں ہوا ہو ۔ ہمارے ملک میں توڑ جوڑ کی سیاست سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئی ہے ۔ توڑ جوڑ کرتے ہوئے عوام کی منتخبہ حکومتوں کو گرانا اور پچھلے دروازے سے اقتدرا حاصل کرلینا یہ عام بات ہوگئی ہے ۔ خود بہار میں بھی یہی کچھ ہوا تھا ۔ نتیش کمار نے کانگریس اور آر جے ڈی کے ساتھ مل کر عوامی اعتماد حاصل کیا تھا اور بی جے پی کو بہار کے عوام نے مسترد کردیا تھا لیکن نتیش کمار نے بعد میں پھر بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا اور اسے پچھلے دروازے سے اقتدار میں حصہ داری دیدی ۔ توڑ جوڑ اور انحراف کی سیاست در اصل ہندوستان کی جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے اور ایسی حرکتوں کو عوام کو یکسر مسترد کردینا چاہئے