بہار انتخابات ‘ گمراہ کن پروپگنڈہ

   

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
بہار اسمبلی انتخابات کیلئے ماحول گرم ہوگیا ہے ۔ فی الحال مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مفاہمت کو قطعیت دینے کیلئے لمحہ آخر تک جدوجہد کی جا رہی ہے اور کچھ جماعتوں کی جانب سے انتخابات کیلئے میدواروں کے انتخاب کا عمل بھی چل رہا ہے ۔ کئی جماعتوں میں ناراضگیوں کا عروج دیکھا جا رہا ہے ۔ جن امیدواروںکو ٹکٹ مل گیا ہے وہ اپنی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں تو جنہیں ٹکٹ نہیں مل پایا ہے وہ لوگ ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں اور کچھ قائدین آزاد مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔ کچھ قائدین ایسے بھی ہیں جو دوسری جماعتوں سے بات چیت کرتے ہوئے ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ بحیثیت مجموعی سیاسی منظر نامہ اتھل پتھل کا شکار ہے ۔ تیز رفتار سرگرمیوں کے درمیان انتخابات کا ماحول تیار ہو رہا ہے اور آئندہ چند دنوں میں باضابطہ طور پر انتخابی مہم کا آغاز ہوجائے گا ۔ اس صورتحال کے درمیان کچھ گوشوں کی جانب سے میڈیا اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ گمراہ کن پروپگنڈہ کرتے ہوئے عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ بہار میں ایک بڑی طاقت کے طور پر شانت کشور کی جن سوراج پارٹی کو پیش کرنے میں میڈیا اور سوشیل میڈیا چینلوں کی جانب سے کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ پرشانت کشور بہار میں اقتدار کے دعویدار ہیں ۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کی جانب سے کئے جانے والے ہر فیصلے اور ہر اقدام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے اس کی ستائشوں کے پل باندھے جا رہے تھے ۔ ہر فیصلے کو ماسٹر اسٹروک قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا تھا ۔ بی جے پی اور جے ڈی یو میں بھی کئی طرح کی ناراضگیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ کچھ قائدین پارٹیوں سے مستعفی بھی ہو رہے ہیں۔ کچھ نے تو چیف منسٹر کی قیامگاہ کے باہر دھرنا تک منظم کیا تھا ۔ ناراض قائدین کو چیف منسٹر نتیش کمار سے ملاقات تک کا موقع نہیں دیا گیا تھا ۔ تاہم میڈیا اور گودی میڈیا کے چینلس کی جانب سے ان امور کو پیش کرنے کی بجائے کانگریس اور آر جے ڈی اتحاد کو نشانہ بنانے کی مہم پوری شدت کے ساتھ شروع کردی گئی ہے ۔
انتخابات کے ماحول میں حقیق صورتحال کو پیش کرتے ہوئے عوام کو با خبر رکھنے کی بجائے عوام کو گمراہ کرنے کے معاملے میں میڈیا ادارے اور سوشیل میڈیا کے مخصوص گوشوں کی جانب سے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ جس طرح سے جے ڈی یو اور بی جے پی میں ناراضگی اور اختلافات دیکھنے میں آ رہے ہیں اسی طرح سے کانگریس اور آر جے ڈی میں بھی کچھ اختلافات ہیں۔ یہ سیاسی اور انتخابی عمل کا حصہ ہے ۔ تاہم جتنی شدت کی ناراضگیاں اور مخالفانہ سرگرمیاں بی جے پی اور جے ڈی یو میں دیکھی جا رہی ہیں اتنی شدت کی مخالفانہ سرگرمیاں آر جے ڈی اور کانگریس میں نہیں ہیں۔ تاہم میڈیا اور سوشیل میڈیا کے کچھ اداروں کی جانب سے محض کانگریس اور آر جے ڈی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ مہا گٹھ بندھن کی اتحادی جماعتوں میں قطعی معاہدہ سے قبل کچھ مسائل ضرور پیدا ہوئے تھے تاہم ان کو بات چیت کے ذریعہ خاموشی کے ساتھ حل کرلیا گیا ہے اور جو کچھ بھی مسائل ہیں ان کو بہت جلد حل کرلیا جائیگا ۔ اس کیلئے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ تاہم اس صورتحال کے تعلق سے بھی گمراہ کن پروپگنڈہ کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ ایک منفی سوچ کے ساتھ تیار کیا گیا منصوبہ ہے جس کو عملی شکل دینے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے گنوایا نہیں جا رہا ہے ۔ منفی سوچ و منصوبوں کے ساتھ انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کیلئے یہ سارا کچھ ڈرامہ کیا جا رہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام میں ایسی کوششوں کا کوئی خاص اثر نہیں دیکھا جا رہا ہے ۔ عوام سوشیل میڈیا کے ان چینلوں اور اداروں پر بھروسہ کر رہے ہیں جو حقیقی صورتحال کو پیش کرتے ہوئے عوام کو واقف کروانے کیلئے بے تکان جدوجہد کر رہے ہیں۔ کسی کی تائید یا کسی کی مخالفت کے بغیر حقیقی صورتحال سے رائے دہندوں کی رہنمائی کے جذبہ سے کام کر رہے ہیں۔ عوام میں جو شعور بیدار ہوا ہے اس کے نتیجہ میں میڈیا ادارے اور سوشیل میڈیا کے مخصوص گوشے عوام میں اپنی اہمیت کھونے لگے ہیں اس کے باوجود انہیں اس کا احساس نہیں ہو پا رہا ہے اور وہ لگاتار منفی سوچ و جذبہ کے ساتھ ہی کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔