بہار ‘ انتخابی مہم کا دوسرا مرحلہ بھی ختم

   

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
بہار میں انتخابی مہم کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا ۔ گہما گہمی اور گھن گرج کا اختتام عمل میں آگیا اور اب ایک طرح کا اضطراب آمیز سکون دیکھا جا رہا ہے تاہم اس سکون میں سیاسی جماعتوں کی جو بے چینی ہے وہ ناقابل بیان ہی کہی جاسکتی ہے ۔ وزیر اعظم نریندرمودی ‘ وزیر داخلہ امیت شاہ بی جے پی کے کئی چیف منسٹرس ‘ مرکزی وزراء ‘ سینئر قائدین کے علاوہ نتیش کمار ‘ چراغ پاسوان ‘ قائد اپوزیشن راہو ل گاندھی ‘ کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا ‘ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو اور کئی دوسرے قائدین نے انتہائی سرگرمی کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیا اور رائے دہندوں کو رجھانے اور ان کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔جہاںزمین پر گاڑیاںدوڑتی رہیں وہیں آسمان اور فضائوں میں طیارے اور ہیلی کاپٹرس بھی اڑتے دکھائی دئے اور ممکنہ حد تک ہر جماعت اور ہر لیڈر نے زیادہ سے زیادہ تعداد میں عوام تک رسائی کی کوشش کی ہے ۔ جس طرح پہلے مرحلے کی انتخابی مہم کے دوران بھی اخلاقیات وا قدار کو پامال کیا گیا تھا اسی طرح کا حال دوسرے مرحلے کا بھی رہا ہے اور سیاسی قائدین کی جانب سے جو ریمارکس اور تقاریر کی گئیں وہ انتخابی مہم کے گرتے معیارات کو ظاہر کرنے کیلئے کافی تھی ۔ جہاں تک برسر اقتدار این ڈی اے اتحاد کا سوال ہے تو اس کے قائدین نے جتنا ممکن ہوسکے عوامی اور بنیادی مسائل سے بچنے کی کوشش کی اور محض متنازعہ بیانات کا سہارا لیا اور نزاعی مسائل کو ابھار کر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ این ڈی اے اتحاد کی جانب سے اپنے دو دہوں پر محیط دور اقتدار کی کارکردگی اور عوامی بہتری اور فلاح کیلئے کئے گئے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے ووٹ نہیں مانگا گیا ۔ بیس سال پرانے اقتدار کو نشانہ بناتے ہوئے ووٹ مانگے کی کوشش کی گئی ۔ یہ کوئی مثبت ووٹ نہیں بلکہ منفی ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کہی جاسکتی ہے جو افسوسناک صورتحال کو ظاہر کرتی ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ این ڈی اے کے پاس دکھانے کیلئے کوئی کام کاج نہیں تھا ۔
جہاں تک اپوزیشن مہا گٹھ بندھن کا سوال ہے تو اس کے لیڈر تیجسوی یادو نے انتخابی بگل بجنے سے قبل ہی سے اپنی تیاریاں شروع کردی تھیں اور انہوں نے انتخابی مہم کا ایجنڈہ طئے کرتے ہوئے روزگار اور عوامی بہتری کے اقدامات کو پیش کرنے کی کوشش کی تھی ۔ گودی میڈیا ہو یا پھر این ڈی اے قائدین ہوں انہوں نے اس مسئلہ کو حتی الامکان دبانے کی کوشش کی حالانکہ انہیں بھی اس کا جواب دینے کیلئے مجبور ہونا پڑا تھا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹا اور بے رحمی جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے انتخابی مہم کے معیار کو گرانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے بھی بہار میں نتیش کمار کے 20 سال کے اقتدار اور مرکز میں خود اپنے گیارہ سال کے اقتدار میں بہار کیلئے کیا کچھ کیا گیا اس کا حساب کتاب پیش کرنے سے گریز کیا اور محض منفی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے عوام کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کوشش میں گودی میڈیا نے بھی حسب روایت سرگرم رول ادا کیا اور میڈیا کی جانب سے حقیقی عوامی مسائل کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کو پورا کرنے کی ذرا برابر بھی کوشش نہیں کی ۔ تیجسوی یادو ہوں یا پھر راہول گاندھی یا دوسرے قائدین انہوں نے عوامی مسائل کو ہی عوام کے ذہنوں میں بنائے رکھنے کی کوشش کی اور منفی ایجنڈہ اور پروپگنڈہ پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔ اس سے ان کی عوامی مسائل کی یکسوئی کیلئے سوچ اور سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے جس کا اثر بہار کے ووٹرس پر بھی دکھائی دیا ۔
بہار میں انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن اتحاد کی جانب سے جو مسائل اٹھائے گئے تھے وہ اہمیت کے حامل تھے ۔ قائداپوزیشن راہول گاندھی کی جانب سے ووٹ چوری کا جو مسئلہ اٹھایا گیا تھا اس کا اثر بھی بہار کے رائے دہندوں پر دیکھا گیا ہے ۔ روزگار کیلئے بھی بہار کے نوجوانوں میں سوچ بدلتی دکھائی دی اور وہ اپنے مستقبل کے تعلق سے فکرمندی کا اظہار کر رہے تھے ۔ بحیثیت مجموعی ایک طرف سے جہاں مثبت حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے عوامی مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی وہیں دوسری طرف سے منفی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے نزاعی مسائل کو ابھارنے پر اکتفاء کیا گیا ۔ اب بہار کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کے تعلق سے فیصلہ کریں۔