بہار ‘ بی جے پی کی ضرورت اور مشکلات

   

وفا کے راستے پر چلنے والے سوچ لے اتنا
بہت ممکن ہے گردن تک تیری خود بڑھ کے دارآئے
بہار میں اسمبلی انتخابات کا وقت اب بہت قریب آچلا ہے ۔ ووٹر لسٹ پر نظرثانی کا کام بھی پوری تیزی سے چل رہا ہے اور لوگ ناموں کی شمولیت اور ان کے حذف کئے جانے کے مسئلہ پر تگ و دو کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں بھی زیردوران ہے ۔ تاہم جہاں تک سیاسی سرگرمیوں کی بات ہے تو یہ بہت شدت اختیار کرچکی ہیں۔ ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں ہی ایک دوسرے کے خلاف کام نہیں کر رہی ہیں بلکہ حلیف جماعتیں بھی اپنے اپنے سیاسی مفاد کی تکمیل کیلئے اورا پنے اپنے مطالبات کی یکسوئی کیلئے جدوجہد کرنے میں جٹ گئی ہیں۔ جہاں کانگریس ۔ آر جے ڈی اور دوسری جماعتوں پر مشتمل مہا گٹھ بندھن میں اس بار مکمل اتحاد دکھائی دے رہا ہے وہیں برسر اقتدار این ڈی اے کیلئے صورتحال مشکل ہوتی نظر آ رہی ہی ۔ خاص طور پر لوک جن شکتی پارٹی لیڈر و مرکزی وزیر چراغ پاسوان بی جے پی اور جے ڈی یو کیلئے مشکل پیدا کرے کا سبب بن رہے ہیں۔ ابھی کسی بھی اتحاد میں نشستوں کی تقسیم پر کھل کر بات چیت نہیں ہوئی ہے تاہم اندرونی طور پر مذاکرات چل رہے ہیں اور ہر جماعت چاہتی ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ نشستوں پر مقابلہ کا موقع مل جائے ۔ یہی صورتحال بی جے پی اور این ڈی اے کیلئے مشکل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ بی جے پی کیلئے بہار انتخابات میں کامیابی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے نتائج مرکز کی نریندر مودی حکومت کے استحکام پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ چراغ پاسوان سخت موقف کے ساتھ مول بھاؤ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی کیلئے 40 نشستیں دی جائیں ۔ ان کا استدلال ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ان کی پارٹی نے پانچ حلقوں سے مقابلہ کیا تھا اور تمام پانچ حلقوں پر کامیابی درج کروائی ہے ۔ ایسے میں وہ اسمبلی انتخابات میں بھی زائد نشستوں کی مانگ کر رہے ہیں اور لوک سبھا کے نتائج کو دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے وہ اتنی زیادہ نشستیں چراغ پاسوان کو فراہم کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی ۔ وہ محض 25 نشستیں دینا چاہتی ہے ۔
بہار میں بی جے پی ایک ایسی صورتحال میں پھنسی ہوئی ہے جہاں وہ نہ چراغ پاسوان کی ایل جے پی کو چھوڑنے کا خطرہ مول لے سکتی ہے اور نہ ہی چیف منسٹر نتیش کمار کی جنتادل یو کو ناراض کرسکتی ہے ۔ بی جے پی اگر چراغ پاسوان کو کم نشستوں کی پیشکش کرتی ہے تو ان کے اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کے اندیشے بھی لاحق ہوسکتے ہیں جیسا ماضی میں ہوا تھا ۔ وہیں اگر بی جے پی چراغ پاسوان کو زیادہ نشستیں فراہم کرنے رضامند ہوجاتی ہے تو چیف منسٹر نتیش کمار اس سے ناراض ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی دونوں ہی کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہے ۔ چراغ پاسوان اگر تنہا مقابلہ کرتے ہیں تو اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کے امکانات متاثر ہونگے ۔ ماضی میں بھی پاسوان ایسا نقصان پہونچا چکے ہیں اور اب بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف نتیش کمار ناراض ہوجائیں تو مرکز کی نریندر مودی حکومت کے استحکام پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ نتیش کمار کے 12 ارکان پارلیمنٹ ہیں جن کی تائید مودی حکومت کیلئے ضروری ہے ۔ اس صورتحال میں بی جے پی دونوں ہی کو مطمئن رکھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس میں اسے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر نہ چراغ کو چھوڑنا چاہتی ہے اور نہ ہی نتیش کمار کو ناراض کرنا چاہتی ہے ۔ چونکہ ابھی وقت ہے اس لئے در پردہ مذاکرات اور بات چیت کا سلسلہ چل رہا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں اس تعلق سے ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ اس کیلئے انتظار کرنا پڑے گا ۔
بہار میں فی الحال جو سیاسی ماحول ہے وہ این ڈی اے کیلئے مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔ مہا گٹھ بندھن کے حوصلے بلند ہیں اور اسے عوام کی خاطر خواہ تائید ملتی نظر آ رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی انتہائی احتیاط سے حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہے اور کہا جا رہا ہے کہ دونوں ہی اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ اور مطمئن رکھنے کی کوشش میں بی جے پی دوسری چھوٹی حلیف جماعتوں کی نشستوں میں کٹوتی کرسکتی ہے ۔ انتہائی اہمیت کی حامل اس ریاست میں این ڈی اے اتحاد میں نشستوں کی تقسیم پر جو مفاہمت ہوگی وہ اہمیت کی حامل ہوگی اور دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی چراغ اور نتیش دونوں کو کس طرح مطمئن رکھ پاتی ہے ۔