بہار ‘ تبدیلی کے آثاراور سازشیں

   

مختصر سی ہے یہ تاریخ شبِ فرقت کی
سحر آئی، نہ تم آئے ، نہ قیامت آئی
بہار میں اسمبلی انتخابات کیلئے ابھی الیکشن کمیشن نے بگل نہیں بجایا ہے تاہم تمام سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ برسر اقتدار این ڈی اے تحاد اور پھر اپوزیشن کے مہا گٹھ بندھن کے مابین کانٹے کا مقابلہ ہونے کے آثار ہیں جبکہ بہار کی علاقائی جماعت جن سوراج نے بھی انتخابی عمل میں قسمت آزمائی کرنے کا علان کردیا ہے ۔ جن سوراج کے سربراہ سیاسی حکمت عملی کے ماہر پرشانت کشور نے یہ چیلنج کرنا شروع کردیا ہے کہ بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے بعد نتیش کمار چیف منسٹر نہیں رہیں گے ۔ ریاست کے عوم کی ایک بڑی تعداد چیف منسٹر کی حیثیت سے نتیش کمار کی تبدیلی کی حامی بتائی گئی ہے ۔ بی جے پی نتیش کمار اور چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی کے ساتھ مل کر انتخابات کا سامنا کرے گی تاہم سے یہ احساس ہونے لگا ہے کہ نتیش کمار اس کیلئے انتخابی امکانات کو بہتر نہیں بنا پائیں گے بلکہ نتیش کمار کی وجہ سے دوسری حلیف جماعتوں کے امکانات بھی متاثر ہونگے ۔ بی جے پی سیاسی مجبوری کے تحت نتیش کمار کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی ۔ بہار میں بی جے پی نے تنہا مقابلہ کبھی کیا ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ تمام ریاستوں پر تنہا مقابلہ کیلئے خود کو تیار کر پا رہی ہے ۔ اسی طرح چراغ پاسوان بھی بی جے پی کے ساتھ ہیں اور وہ حالیہ عرصہ میں جس طرح کے بیانات دینے لگے ہیں وہ بھی اس اتحاد کیلئے بہتر نہیں کہے جا رہے ہیں۔ نتیش کمار مرکزی وزیر ہیں اس کے باوجود انہوں نے اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کا اشارہ دیا ہے ۔ اس طرح وہ ریاست میں چیف منسٹر کا چہرہ بننا چاہتے ہیں تاہم عوام انہیں اس انداز میں شائد قبول نہیں کریں گے ۔ بی جے پی نے تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کا عمل شروع کردیا ہے ۔ یہ عمل ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جس پر سیاسی جماعتوں کو شہبات لاحق ہوگئے ہیں۔ ان کے سامنے ہریانہ اور مہاراشٹرا کی مثالیں موجود ہیں جہاں انتخابات سے عین قبل کچھ حقیقی ووٹرس کے نام شامل کرتے ہوئے ایسے 40 لاکھ نام فہرست میں شامل کردئے گئے جن کا پہلے سے کوئی وجود نہیں تھا ۔
آر جے ڈی اور دوسری جماعتوں کا الزام ہے کہ مخصوص ووٹرس کو نشانہ بنانے کیلئے یہ مہم شروع کی گئی ہے ۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کسی بھی انتخابات سے قبل ووٹر لسٹ پر نظرثانی کا کام انجام دیتا ہے لیکن اس میں شفافیت کو لازمی اختیا رکرنے کی ضرورت ہے ۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ میں یہ کام شفافیت کے ساتھ نہیں ہوا تھا جس کے بعد کئی شبہات اور سوالات پیدا ہوگئے تھے ۔ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کے علم میں رکھتے ہوئے قانون کے مطابق اور مروجہ طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کی جانی چاہئے ۔ نت نئے فارمولے اختیار کرتے ہوئے رائے دہندوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنے کی کوششیں نہیں ہونی چاہئیں ۔ جو عمل بہار میں شروع ہوا ہے وہی طریقہ کار مغربی بنگال میں بھی اختیار کیا جارہا ہے ۔ بہار میں چونکہ آئندہ چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں اس لئے زیادہ توجہ بہار پر مرکوز کی جا رہی ہے ۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت الیکشن کمیشن کے ذریعہ ریاست میں بالواسطہ اور خفیہ طور پر این آر سی پر عمل آوری کاآغاز کر رہی ہے ۔ ان شبہات کو دور کرنا بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ دری ہے کیونکہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا محافظ اور نگران کار ہے ۔ الیکشن کمیشن کی کارکردگی ہی ملک میں جمہوریت کے تحفظ کی ضمانت ہوتی ہے اور اگر اس پر شبہات پیدا ہوتے ہیں تو ملک کی جمہوریت کیلئے اسے اچھا نہیں کہا جاسکتا ۔ اس بات کا کمیشن کو پوری طرح خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔
بہار میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو اس کام پر مکمل نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ فہرست رائے دہندگان میں کسی طرح کی الٹ پھیر نہ ہوسکے ۔ کوئی بیرونی ووٹرس کا اندراج نہ ہونے پائے اور ریاست کے جو حقیقی ووٹرس ہیں ان کو محروم نہ کیا جاسکے ۔ سیاسی جماعتوں کو باضابطہ نگران کار کمیٹیاں بناتے ہوئے اس عمل کو شففا بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی طرح کی امکانی سازش کو کامیاب ہونے کا موقع نہ مل پائے اور جو فہرست تیار ہو وہ حقیقی رائے دہندوں پر مشتمل ہو اور ریاست میں جو بھی نئی حکومت تشکیل پائے وہ حقیقی معنوں میں بہار کے عوم کی منتخب کردہ اور ان کی پسند کی حکومت ہوسکے ۔