بہار‘ تقررات کے امتحان پر سیاست

   

کس کو آواز دیں اب کس کا سہارا مانگیں
کوئی جاتا ہے نہ آتا ہے اِدھر لوٹ چلیں
بہار ملک کی ایک ایسی ریاست ہے جہاںپسماندگی بہت زیادہ ہے ۔ ساتھ ہی بہار کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ یہاں اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ سیول سروسیس میںبہار کے امیدوار کئی کارنامے انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو مسابقتی تقررات کے امتحان ہوتے ہیں ان میں بھی بہار کے عوام بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ اس طرح یہاں تقررات کے امتحانات کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ فی الحال بہار میں بہار پبلک سرویس کمیشن امتحانات کے مسئلہ پر ہنگامہ آرائی چل رہی ہے ۔ طلباء کا الزام ہے کہ بہار پبلک سرویس کمیشن امتحانات کے پرچہ جات کا افشاء ہوا ہے ۔ اس امتحان کے انعقاد میں بے قاعدگیاںاور بدعنوانیاں ہوئی ہیں تاہم حکومت اس کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہے ۔ بہار کے پبلک سرویس کمیشن کے امیدواروں نے شدید احتجاج بھی کیا ہے ۔ اس کے باوجود حکومت طلبا کے مطالبات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی امتحانات کے دوبارہ انعقاد کیلئے حکومت تیار ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان کو دور کرنے میں بھی کوئی دلچسپی دکھائی نہیں جا رہی ہے اور نہ ہی نتیش کمار حکومت طلبا کی تشویش اور ان کے سوالات کے جواب دینے کے موڈ میں نظر آتی ہے ۔ چونکہ بہار میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں اس مسئلہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ انتخابی حکمت عملی کے ماہر سمجھے جانے والے پرشانت کشور نے صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوششوں کا بھی آغاز کردیا ہے اور وہ طلباء کے احتجاج میں بھی شریک ہوئے تھے ۔ وہ طلبا کی جانب سے مسلسل اظہار خیال کرنے لگے ہیں حالانکہ طلبا برادری نے انہیں اپنا ترجمان نہیں بنایا ہے ۔ پرشانت کشور اپنے جن سواراج کے ذریعہ سرگرم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوںن ے یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ وہ بہار کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیں گے ۔ تاہم چونکہ یہ معاملہ طلباء برادری سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے مستقبل کا سوال ہے تو ایسے میں سیاسی جماعتوں کو اپنی روٹیاں سینکنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاست پھر کی جاسکتی ہے ۔
سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلبا کے حقیقی اور واجبی مطالبات پر حکومت سے نمائندگی کریں تاکہ ان کی تشویش کو دور کیا جاسکے ۔ جہاں پرشانت کشور کی جن سوراج کی جانب سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہیں حکومت اس معاملہ کو مسلسل طول دے رہی ہے اور اس کو منطقی انجام تک پہونچانے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ طلباء برادری کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے یا ہمدردانہ غور کرنے کا کوئی تیقن ہی دیا جا رہا ہے ۔ اس معاملے میں راشٹریہ جنتادل کے تیجسوی یادو بالکل خاموشی اختیار کئے ہوئے سیاست کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے حکومت سے ضرور مطالبہ کیا ہے کہ وہ طلباء کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے سے گریز کرے اور طلبا برادری کی جانب سے جو جائز اور واجبی مطالبات پیش کئے جا رہے ہیں ان کا ہمدردانہ جائزہ لیتے ہوئے انہیں حل کرنے کی کوشش کرے ۔ بی جے پی ریاست میں نتیش کمار حکومت کی حلیف ہے اس لئے وہ بھی سیاسی مجبوری کے تحت کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کر رہی ہے جبکہ اسے حکومت کے ساتھ رہنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبا برداری کے مسائل حل کرنے اور امتحانات کے متعلق واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ہے ۔ سبھی اپنی اپنی سیاسی بندشوں میں بندھے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اسی کے مطابق عمل بھی کر رہے ہیں۔
معاملہ چونکہ طلباء کے مستقبل کا ہے اور تقررات سے متعلق امتحانات کا ہے ایسے میں نتیش کمار حکومت کو اس معاملے میں دو ٹوک موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسے طلباء برادری کے نمائندوں سے بات چیت کرنی چاہئے ۔ انہیںاعتماد میں لیتے ہوئے ان کی تشویش کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جو واجبی اور جائز مطالبات ہیں ان کی یکسوئی کیلئے فوری طور پر اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اس سارے مسئلہ کو طلبا کے مستقبل سے جوڑ کر دیکھا جانا چاہئے سیاسی فائدہ یا سیاسی مفادات سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئے ۔ جتنا جلد اس مسئلہ کا حل دریافت کرلیا جائے گا اتنا ہی بہار اور طلبا دونوں کے مفاد میں ہوگا ۔