بہار ‘ تیجسوی یادو کو ذمہ داری

   

علم ملتا ہے یہاں درسِ عمل ملتا ہے
کام ملتا ہے ہر اک کام کا پھل ملتا ہے
بہار کی اصل اپوزیشن جماعت راشٹریہ جنتادل گذشتہ کئی برسوں سے ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ حالانکہ اسے دو مرتبہ نتیش کمار کی جنتادل یو کے ساتھ اتحاد کے ذریعہ اقتدار میں شراکت داری کا موقع حاصل ہوا تھا تاہم دونوں ہی مرتبہ نتیش کمار نے اتحاد تبدیل کرتے ہوئے بی جے پی کا ہاتھ تھام لیا ۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات میں تیجسوی یادو نے تنہا مقابلہ کرتے ہوئے بی جے پی اور نتیش کمار کو تقریبا شکست سے دو چار کردیا تھا تاہم کچھ اپنوں کی ملی بھگت کے نتیجہ میں ووٹ تقسیم ہوگئے اور نتیش کمار کو بی جے پی کی مدد سے اقتدار مل گیا تھا ۔ راشٹریہ جنتادل اس بار مہا گٹھ بندھن کی دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جاریہ سال بہار اسمبلی کیلئے انتخابات ہونے والے ہیں اور وقت ضائع کئے بغیر مہا گٹھ بندھن نے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے کل ہی پٹنہ کا دورہ کیا اور تیجسوی یادو سے ملاقات کی ۔ انہوں نے یہ واضٰح کردیا کہ کانگریس پارٹی بہار میں انڈیا اتحاد کے ساتھ مل کر انتخابات میں مقابلہ کرے گی ۔ جہاں تک راشٹریہ جنتادل کی بات ہے تو پارٹی نے کل ہی تیجسوی یادو کو عملا صدارتی اختیارات سونپ دئے ہیں۔ انہیں وہ تمام اختیارات دئے گئے ہیں جو اب تک پارٹی کے قومی صدر لالو پرساد یادو کے تفویض تھے ۔ انہیں پارٹی کے دستور میں تبدیلی ‘ پارٹی پرچم اور پارٹی امیدواروں کے انتخاب سے متعلق تمام اختیارات سونپ دئے ہیں۔ تیجسوی یادو نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ ان پر جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ بھاری ہے اور جن توقعات کے ساتھ اسے سونپا گیا ہے وہ ان کو پورا کرنے کی کوشش کرینگے اور اپنی جانب سے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ تیجسوی یادو ویسے تو عملا تمام اختیارات استعمال کر رہے تھے تاہم اب باضابطہ طور پر پارٹی کی جانب سے انہیں یہ اختیارات سونپ دئے گئے ہیں اور بہار اسمبلی انتخابات سے قبل پارٹی کا یہ فیصلہ پارٹی کیلئے بہتر ہوسکتا ہے ۔ نشستوں کی تقسیم پر بات چیت ‘ ٹکٹس کی تقسیم وغیرہ ایسے امور ہیں جن پر اب تیجسوی یادو کھل کر فیصلے کرسکتے ہیں اور پارٹی مفاد سب سے افضل رہے گا ۔
بہار میں جس طرح کے سیاسی حالات ہیں وہ قابل توجہ ہیں۔ یہ درست ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں نتیش کمار اور بی جے پی کے اتحاد کو سبقت حاصل ہوئی ہے تاہم یہی صورتحال گذشتہ لوک سبھا انتخابات میںبھی رہی تھی ۔ اس کے باوجود اسمبلی انتخابات میں تیجسوی یادو نے راشٹریہ جنتادل کو سب سے بڑی پارٹی کا موقف دلانے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ انہوں نے تن تنہا جدوجہد کرتے ہوئے انتخابی مہم چلائی تھی اور بہار کے عوام کی تائید حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ اس بار بھی یہی توقع کی جا رہی ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے برخلاف اسمبلی انتخابات کے نتائج ہوسکتے ہیں جو صورتحال مہاراشٹرا میں بھی دیکھنے کو ملی ہے ۔ اس کے علاوہ بہار میں اس بار پرشانت کشور کی جن سوراج کو بھی سیاسی پارٹی میں تبدیل کردیا گیا ہے اور وہ بھی انتخابات میں مقابلہ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ گذشتہ اسمبلی انتخابات کے برخلاف اس بار لوک جن شکتی پارٹی کے چراغ پاسوان اور چیف منسٹر نتیش کمار کے مابین سرد جنگ بھی ایسا لگتا ہے کہ تھم سی گئی ہے ۔ ایسے میں راشٹریہ جنتادل کو پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ انتہائی موثر حکمت عملی کے ذریعہ انتخابات میں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ اسی کو محسوس کرتے ہوئے پارٹی نے تیجسوی یادو کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے اس لئے انہیں تمام اختیارات سونپ دئے ہیں اور ایک طرح سے انہیں پارٹی صدر کا رتبہ دیدیا ہے ۔ اس سے پارٹی کی انتخابی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی امید ہے ۔
تیجسوی یادو ایک حرکیاتی لیڈر ہیں اور وہ بہار کے عوام کا موڈ اور ان کی نبض سمجھتے ہیں۔ وہ نوجوان ہیں اور نوجوانوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کو تمام اختیارات سونپ دینے سے پارٹی کیلئے فائدہ ضرور ہوسکتا ہے ۔ ساتھ ہی وہ مہا گٹھ بندھن کی جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور مشترکہ مقابلہ کے ذریعہ اس بار اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار اور بی جے پی کی کامیابیوں کا سلسلہ روکنے کے بھی اہل ہیں۔ ایسے میں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ راشٹریہ جنتادل نے جو فیصلہ کیا ہے وہ سیاسی سمجھ بوجھ والا اور ایک مثبت فیصلہ ہے اور اس کے اثرات بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج پر دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔