تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاست بہار میں انتخابات کا بگل اب کسی بھی وقت بجایا جاسکتا ہے ۔ ریاست میں جاری فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی کے عمل کے دوران انتخابات کا شیڈول اور پھر اعلامیہ جاری کیا جاسکتا ہے ۔ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ بہار میں اکٹوبر کے اواخر یا پھر نومبر کے اوائل میں اسمبلی انتخابات ہوسکتے ہیں۔ ان انتخابات کیلئے سیاسی سرگرمیاں بہت شدت اختیار کرگئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی اپنی تیاریاں بھی عروج پر پہونچ چکی ہیں اور ہر کوئی انتخابات میں کامیابی کیلئے حکمت عملی بنانے میں جٹ گیا ہے ۔ جہاں اپوزیشن مہا گٹھ بندھن کی جانب سے ووٹر ادھیکار یاترا نکالی گئی اور اب بہار میں قائد اپوزیشن تیجسوی یادو بہار ادھیکار یاترا نکالنے والے ہیں وہیں برسر اقتدار این ڈی اے اتحاد کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے بہار کے دورے بھی بڑھ گئے ہیں۔ بیرونی دورہ سے واپسی کے فوری بعد مودی نے بہار کی خواتین سے خطاب کیا تھا اور آج انہوں نے بہار کا دورہ کرتے ہوئے ہزاروں کروڑ روپئے کے ترقیاتی پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھا ہے ۔ اس سے پہلے بھی وزیر اعظم مودی بہار کے اسی طرح دورے کرتے رہے ہیں اور بہار کیلئے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑ روپئے کے پراجیکٹس کا اعلان کرتے رہے ہیں لیکن ان میں شائد ہی کوئی پراجیکٹ شروع کیا گیا ہواور شائد ہی کوئی پراجیکٹ مکمل کیا گیا ہو۔ سابقہ پراجیکٹس اور سنگ بنیاد کے تعلق سے عوام میں تفیصلات پیش کرنے کی بجائے مزید پراجیکٹس کی سنگ بنیاد رکھتے ہوئے عوام کو بیوقوف بنایا جا رہاہے ۔ ساتھ ہی ایک اور اہم بات یہ دیکھنے میں آ رہی ہے کہ بہار انتخابات کیلئے عوام کو درپیش مسائل پر مباحث نہیں ہو رہے ہیں۔ عوامی مسائل کی یکسوئی کے منصوبے اور پروگرامس نہیں بنائے جا رہے ہیں بلکہ اس بات پر توجہ زیادہ دی جا رہی ہے کہ کس نے کس کو گالی دی ۔ کس نے کس کو نیچا دکھایا ۔ کس نے کس کی بے عزتی کی اور کس نے کس کو نشانہ بنایا ۔ سیاسی قائدین عوام کے مسائل کو پیش کرنے کی بجائے ذاتی مسائل کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بہار کا شمار ملک کی پسماندہ ترین ریاستوں میں ہوتا ہے ۔ بی جے پی ہر اسمبلی انتخاب کے وقت ڈبل انجن سرکار کا نعرہ دیتی ہے ۔ بہار میں بیس سال سے ڈبل انجن سرکار ہے اور بہار نے گذشتہ بیس سال میں دوہری رفتار سے ترقی کرنے کی بجائے دوہری رفتار سے مزید پسماندگی کا دور دیکھ لیا ہے ۔ بیس سال کے طویل عرصہ کی حکمرانی کا جواب دینے کی بجائے آر جے ڈی دور کے جنگل راج کے حوالے دیتے ہوئے ووٹ مانگنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بی جے پی بہار کی صورتحال کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتی اور اپوزیشن کو نشانہ بنانے کیلئے ایسے مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے جن کا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ بنیادی اور سلگتے ہوئے مسائل پر توجہ کرنے کی بجائے وزیر اعظم کی والدہ کے تعلق سے ناشائستہ ریمارکس پر سیاست کی جا رہی ہے ۔ بہار کی ترقی کا حساب کتاب پیش کرنے کی بجائے دو دہے پرانے آر جے ڈی اقتدار کو نشانہ بنانے پر محنت کی جاتی ہے ۔ عوام کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ گذشتہ بیس سال میں بہار کی جی ڈی پی میں کتنا اضافہ ہوا ہے ۔ عوام کو یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ گذشتہ بیس سال کے نتیش کمار کے اقتدار میں بہار میں فی کس آمدنی کتنی ہوگئی ہے ۔ یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ ترقی کے معاملے میں بہار نے کتنی ریاستوں کو پیچھے چھوڑا ہے اور بہار میں سرکاری دواخانوں اور سرکاری ملازمتوں کی تعداد کتنی ہوئی ہے ۔ بہار میں کتنے کالجس اور کتنی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں اس کا بھی کوئی حساب کتاب عوام میں پیش نہیں کیا جا رہا ہے ۔
اب جبکہ انتخابات کا وقت آن پہونچا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر عوام کی تائید حاصل کرنے سرگرم ہوگئی ہیں تو عوام کو بھی یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ بیس سال میں نتیش کمار حکومت نے کیا کیا ہے ۔ کتنی ترقی دلائی ہے اور عوام سے کئے گئے کتنے وعدوں کو بی جے پی اور جے ڈی یو نے پورا کیا ہے ۔ محض جذباتی مسائل اور شخصی تنقیدوں کو عوام میں پیش کرتے ہوئے تائید حاصل کرنے کی کوششوں کو مسترد کیا جانا چاہئے اور پوری سیاسی سمجھ بوجھ اور فراست کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے مسائل کو پس پشت ڈالنے والی سیاسی طاقتوں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے ۔