یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ
مسافروں سے کہو اُن کی رہ گزر آئی
بہار میں انتہائی اہمیت کے حامل اسمبلی انتخابات اب اپنے اختتامی مراحل کی سمت پہونچ رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے کی انتخابی مہم آج شام اختتام کو پہونچے گی اور پھر 11 نومبر کو ریاست میں دوسرے مرحلے کیلئے 122 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ پہلے مرحلے میں 121 نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے گئے تھے ۔ ہر دو اتحاد پہلے مرحلے میں کامیابی ملنے اور سبقت حاصل ہونے کا دعوی کر رہے ہیں اور دوسرے مرحلے کیلئے انتخابی مہم کو مزید شدت دیدی گئی ہے ۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ این ڈی اے حالانکہ کامیابی کے تعلق سے بلند بانگ دعوے تو کر رہا ہے لیکن اس اتحاد میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے این ڈی اے کی کامیابی کی صورت میں نئے چیف منسٹر کا انتخاب ارکان اسمبلی کے اجلاس میں کرنے کے اعلان کے بعد خاص طور پر این ڈی اے میں بکھراؤ کی کیفیت پیدا ہونے لگی تھی ۔ کہا جا رہا ہے کہ بہار میں تین جماعتوں جے ڈی یو ‘ بی جے پی اور ایل جے پی کے کارکن جہاں جہاں ان جماعتوں کے امیدوار ہیں ایک دوسرے کے خلاف کام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ چونکہ نتیش کمار کو آئندہ چیف منسٹر قرار دینے سے گریز کیا گیا ہے ایسے میں خاص طور پر جے ڈی یو کے کارکن ان حلقوں میں جہاں بی جے پی اور ایل جے پی کا امیدوار مقابلہ کر رہا ہے خاموشی کے ساتھ آر جے ڈی کیلئے کام کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ کئی حلقوں میں ان جماعتوں کے کارکنوں نے شکایت کی ہے کہ دوسری اتحادی جماعتوں کے کارکن ان کے ساتھ پوری طرح سے تعاون کرنے سے گریزاں ہیں ۔ جہاں بی جے پی امیدوار میدان میں ہیں وہاں جے ڈی یو کے کارکن ان سے تعاون نہیں کر رہے ہیں اور جہاں ایل جے پی کے امیدوار ہیں وہاں بھی جے ڈی یو کارکنوں کا رویہ سرد مہری والا ہی ہے ۔ جہاں جے ڈی یو کے امیدوار مقابلہ کر رہے ہیں وہاں بی جے پی اور ایل جے پی کے کارکن ان کے خلاف کام کرنے لگے ہیں۔ یہ صورتحال این ڈی اے کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے اور یہ ناراضگیاں اور اختلافات اب کھل کر عوام کے سامنے بھی آنے لگے ہیں۔ برسر اقتدار اتحاد کے امیدواروں کو عوامی ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے اور یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔
آخری وقتوں میں وزیر داخلہ امیت شاہ بھی بہار میں بہت زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں اور انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ بہار میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوگی ۔ اس طرح انہوں نے بھی یہ واضح اشارہ دیدیا ہے کہ این ڈی اے کا بکھراؤ تقریبا طئے ہوگیا ہے اور محض انتخابی نتائج تک یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ بی جے پی یہ امید کر رہی ہے کہ وہ سب سے زیادہ نشستیں جیت کر ایل جے پی اور جے ڈی یو کی مدد سے اپنی حکومت بنائے گی اور نتیش کمار کے پاس سوائے بی جے پی کی تائید کرنے کے کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا ۔ اب تک این ڈی اے کے قائدین لگاتار یہی کہتے رہے تھے کہ بہار میں این ڈی اے کو حکومت حاصل ہوگی تاہم امیت شاہ نے اسے بی جے پی حکومت قرار دیتے ہوئے دوسری جماعتوں کیلئے ایک واضح پیام دیدیا ہے کہ اب این ڈی اے حکومت نہیں بلکہ بی جے پی حکومت قائم ہوگی ۔ اسی وجہ سے جے ڈی یو کے کارکن خاص طور پر بی جے پی سے ناراض ہیں ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت نے بھی اپنے قائدین اور کارکنوں کو یہ واضح پیا م بھی روانہ کردیا ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہوسکے جے ڈی یو کے امیدواروں کی شکست کو یقینی بنایا جائے تاکہ جے ڈی یو انتخابی نتائج کے بعد وزارت اعلی کیلئے مستحکم انداز میں دعویداری پیش نہ کرسکے اور اس کے پاس سوائے بی جے پی کی تائید کرنے کے کوئی اور راستہ یا چارہ نہ رہ جائے ۔ اس تعلق سے بھی عوامی حلقوں میں کئی طرح کے دعوے سامنے آنے لگے ہیں۔ اس صورتحال نے جے ڈی یو کارکنوں کے حوصلے پست کردئے ہیں اور اس کا واضح اظہار بھی ہونے لگا ہے ۔
سیاسی حلقوں میں یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے محض انتخابی نتائج بلکہ رائے دہی کے دوسرے مرحلے تک کیلئے نتیش کمار کو برداشت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جیسے ہی نتائج سامنے آئیں گے نتیش کمار کو حاشیہ پر کردیا جائے گا ۔ بی جے پی بہار میں بھی مہاراشٹرا جیسی حکمت عملی پر عمل کرنا چاہتی ہے اور جس طرح سے سابق چیف منسٹر ایکناتھ شنڈے کو ڈپٹی چیف منسٹر بننے کیلئے مجبور کردیا گیا ہے اسی طرح سے نتیش کمار پر بھی دباؤ میں اضافہ کیا جائے گا ۔ نتیش کمار اگر اس کیلئے تیار نہ ہوئیں تو جے ڈی یو کو توڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا اور نتیش کمار کو سیاسی طور پر یکا و تنہا کرنے کا منصوبہ بھی تیار کرلیا گیا ہے ۔ اس صورتحال سے یہ واضح ہونے لگا ہے کہ بہار میں این ڈی اے کا بکھراؤ تقریبا طئے ہوگیا ہے اور صرف دوسرے مرحلہ کی رائے دہی اور نتائج کے اعلان کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔
مہاراشٹرا میں لینڈ اسکام
مہاراشٹرا میں اب ایک لینڈ اسکام سامنے آیا ہے ۔ تقریبا 300 کروڑ روپئے مالیتی سرکاری اراضی کو فروخت کردیا گیا ہے اور اس کے خریدار کوئی اور نہیں بلکہ ڈپٹی چیف منسٹر اجیت پوار کے فرزند پارتھ پوار ہیں۔ اجیت پوار پہلے بھی مہاراشٹرا میں کئی اسکامس اور اسکینڈلس کے الزامات میں گھرے رہے ہیں اور بی جے پی نے ان پر 70 ہزار کروڑ کے اسکام کا الزام عائد کیا تھا ۔ بعد میں ان سے اتحاد کرتے ہوئے انہیں ڈٖپٹی چیف منسٹر بنادیا گیا ۔ اب اجیت پوار کے فرزند پارتھ پوار پر سرکاری اراضی کی خریدی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کیلئے اسٹامپ ڈیوٹی کو بھی برخواست کردیا گیا تھا ۔ چونکہ خود اجیت پوار الزامات میں گھرے رہے ہیں اور اب ان کے فرزند پر اس طرح کا الزام عائد کیا گیا ہے تو اس سارے معاملے کی انتہائی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے ۔ کسی سیاسی دباؤ یا مداخلت کے بغیر تحقیقات کرواتے ہوئے حقائق کو منظر عام پر لایا جانا چاہئے اور جو بھی خاطی قرار پائیں انہیں سزائیں دلائی جانی چاہئیں۔ تاہم عوامیں تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ اس اسکام کو بھی سابقہ الزامات کی طرح نظرانداز ہی کردیا جائیگا اور بتدریج عوامی توجہ سے ہٹادیا جائے گا ۔