بہار میں بی جے پی تلملا اُٹھی

   

روش کمار
امریکہ کی ایک کمپنی ہے ’’ٹیسلا‘‘ (Tesla) ، اس کے بانی ایلون مسک نے اپنے شیئر فروخت کرکے 34 ہزار کروڑ روپئے کی کثیر رقم کمائی۔ دنیا کیلئے یہ بڑی خبروں میں سے ایک ہے، لیکن ایلون مسک اگر بہار آگئے تو شیئرس کیا پوری کمپنی فروخت کردیں گے اور کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوکر سیاست کرنے لگ جائیں گے۔ بجلی سے چلنے والی کاروں کا کاروبار چھوڑ دیں گے۔ انہیں سمجھ میں نہیں آئے گا کہ یہاں سیاست میں ایسا کیا ہے جو پیسے میں نہیں۔ ایلون مسک ہی نہیں، آپ سب ہی کو سمجھنا ہوگا کہ ایسے وقت جب اعلان ہوگیا ہو کہ اپوزیشن ختم ہوگئی ہے تب ہی حکمراں جماعت سے کوئی نکل کر اپوزیشن میں آجاتا ہے اور اعلان کردیتا ہے کہ اب ہم بھی اپوزیشن میں آگئے ہیں، اپوزیشن کو مضبوط بنائیں گے ۔ ایسا ہی اعلان نتیش کمار نے 8 ویں مرتبہ چیف منسٹر بہار کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پرزور طریقہ سے اپوزیشن کیلئے کام کریں گے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ نتیش 2024ء کے عام انتخابات میں عہدۂ وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ 2014ء میں کامیابی حاصل کرنے والے 2024ء کے آگے کا حساب خود دیکھ لیں، جہاں تک بہار میں لوک سبھا نشستوں کا سوال ہے، اس ریاست میں لوک سبھا کی 40 نشستیں ہیں۔ 2019ء میں بی جے پی۔ جے ڈی یو اور لوک جن شکتی پارٹی نے متحدہ طور پر انتخاب لڑا تب بی جے پی کو 17 جنتا دل (یو) کو 16 اور لوک جن شکتی پارٹی کو 6 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ اس طرح ان تینوں جماعتوں کو 39 نشستوں پر کامیابی ملی۔ لوک جن شکتی پارٹی بکھر چکی ہے اور این ڈی اے اب بہار میں ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔ نتیش کمار نے تو اب مودی کو بالواسطہ طور پر چیلنج بھی کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اب دیکھنا یہ ہے کہ 2014ء میں کامیاب ہونے والے 2024ء میں بھی کیا کامیاب ہوں گے۔ اگرچہ نتیش کے بیان سے چیلنج شروع ہوچکا ہے لیکن مودی خاموش ہیں۔ شاید وہ مودی وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ ایک بات تو ضرور ہے کہ بہار میں سیاسی ہلچل شروع ہوچکی ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں سے امکانی خطرات کے باوجود بہار کے سیاسی قائدین نے شور مچانا اور مودی جی کی بی جے پی اور ان کی حکومت کو للکارنا یا چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔
آنجہانی رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان نے اگرچہ نتیش کمار کو مبارکباد نہیں دی لیکن تیجسوی یادو کو مبارکباد دیتے ہوئے نتیش کمار کو تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ آپ کے نئے ساتھی نے مایوس کیا۔ ویسے بھی آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ چراغ پاسوان کی پارٹی ایم پی لوک جن شکتی پارٹی کو لئے این ڈی اے میں شامل ہوئے ہیں۔ ہم چراغ پاسوان کے چچا کی بات کررہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا چراغ پاسوان موجودہ سیاسی تبدیلیوں کے پیش نظر این ڈی اے میں واپس ہوں گے؟ بہار میں کچھ بھی ہوسکتا ہے جب 288 رکنی مہاراشٹرا اسمبلی میں 36 ارکان اسمبلی کے گروپ کو چیف منسٹر کا عہدہ حاصل ہوسکتا ہے تو 243 رکن بہار اسمبلی میں بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بہار کے گورنر مسٹر چوہان نے نتیش کمار کو عہدہ چیف منسٹری کا حلف دلایا۔ کمار نے آٹھویں مرتبہ وزیراعلیٰ کے عہدہ کا حلف لیا جبکہ لالو پرساد یادو کے چھوٹے فرزند تیجسوی یادو نے دوسری مرتبہ نائب وزیراعلیٰ کے عہدہ کا حلف لیا۔ اس موقع پر تیجسوی نے نتیش کمار کے پاؤں چھو کر بی جے پی کو یہ جواب دیا کہ وہ نتیش کمار کا احترام کرتے ہیں۔ اس کے بعد دونوں نے کابینی اجلاس میں شرکت کی۔ اب آر جے ڈی کے رکن اسمبلی کو نیا اسپیکر بنایا جارہا ہے تاکہ کسی کیلئے بھی آر جے ڈی کو توڑنا اس کے ارکان کی وفاداریاں خریدنا آسان نہ رہے۔ عہدۂ وزارت اعلیٰ کا حلف لینے کے بعد نتیش کمار نے جس طرح کا بیان دیا ہے۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ انہوں نے لڑنے کا پورا پورا ارادہ کرلیا ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو لے کر سوال کئے جارہے ہیں کہ جب ان کا قہر ٹوٹے گا تو اس کا نتیش اور تیجسوی کیسے سامنا کریں گے۔2014ء میں جو کامیاب ہوئے ہیں، وہ 2024ء کے آگے رہ پائیں گے یا نہیں؟ نتیش کمار کی یہ بات سرخی کیلئے ٹھیک ہے لیکن سیاست ہیڈلائن یا سرخی سے نہیں ہوتی۔ نتیش کمار نے 2014ء میں بھی نریندر مودی کی مخالفت کی تھی تب تو نریندر مودی کو کامیابی سے کوئی روک نہیں پایا۔ اب سوال ہی پیدا ہورہا ہے کہ کیا اس مرتبہ تیاری کچھ مختلف ہے جو 2024ء کا چیلنج دیا جارہا ہے۔ ایسا صاف محسوس ہورہا ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات کیلئے بہار کا سیاسی میدان نئے سرے سے تیار ہورہا ہے۔ اس دوران بی جے پی کے سینئر لیڈر اور بہار کے سابق ڈپٹی چیف منسٹر سشیل مودی نے وہ کہہ دیا جسے الزام کی شکل میں کہا جارہا تھا ۔ سشیل مودی نے کہہ دیا کہ شیوسینا کو بی جے پی ہی نے توڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان ہی لوگوں کو توڑا جن لوگوں نے ہمیں دھوکہ دیا، چاہے وہ مہاراشٹرا میں شیوسینا کیوں نہ ہو۔ شیوسینا کا معاہدہ تھا بی جے پی کے ساتھ اور شیوسینا نے دھوکہ دیا تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ہم نے 9 اگست کو ہی کہا تھا کہ آیا بی جے پی نے جے ڈی یو کو توڑنے کی کوشش کی، اس سوال کا جواب ملے گا تو مہاراشٹرا سے لے کر جھارکھنڈ تک کا جواب مل جائے گا، مگر بہار کا جواب آنے سے پہلے ہی سشیل مودی نے مہاراشٹرا کے سوال کا جواب دے دیا کہ بی جے پی نے شیوسینا کو توڑا ہے۔ بہار کی سیاست کا یہی اثر ہے کہ یہاں کا جھوٹ کہیں اور کے سچ میں بدل جاتا ہے۔ اب جب سشیل مودی کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی نے شیوسینا توڑی ہے تو اب یہ بھی بتادیں کہ چارٹرڈ طیارہ کے ذریعہ ممبئی سے سورت، سورت سے گوہاٹی اور وہاں سے گوا لے جانے کا انتظام کس نے کیا؟ کیا اپوزیشن کا الزام درست ہے کہ ای ڈی اور دوسری تحقیقاتی ایجنسیوں سے ڈرا دھمکاکر شیوسینا کے ارکان اسمبلی کو توڑا گیا۔ سشیل مودی بتا سکتے ہیں کہ یہ سب صحیح ہے یا نہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایکناتھ شنڈے کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی گئے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ای ڈی کی ان پر نظر تھی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی ۔ جنتا دل (یو) کو چیلنج کررہی ہے۔ دھوکہ کی بات اٹھاکر یاد دہانی کرا رہی ہے کہ اس نے دھوکہ دینے والی شیوسینا کو کیسے توڑ دیا۔ اگر نتیش 2024ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کا چیلنج دے رہے ہیں تو کیا بی جے پی اس کا سامنا سیاسی طور پر کرے گی یا تحقیقاتی ایجنسیوں کے پیچھے چھپ کر کرے گی۔ اس سے پہلے اس حکومت کو کسی اور طریقہ سے گرادے گی۔ بی جے پی ابھی سے ہی تیجسوی کے جیل جانے کی بات کرنے لگی ہے۔ سشیل کمار مودی کے مطابق ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو کے خلاف رشوت ستانی کے معاملے میں چارج شیٹ پیش کی جائے گی، وہ ضمانت پر باہر ہیں۔ ان کا مقدمہ شروع ہوچکا ہے، ان کے خلاف پختہ ثبوت ہیں کہ انہیں سزا بھی ہوسکتی ہے۔ جواب میں آر جے ڈی لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ سی بی آئی ای ڈی سے نہیں ڈریں گے۔ 9 اگست کو جب نتیش کمار نے بی جے پی کو حکومت سے نکال باہر کیا تب بھی بی جے پی قائدین اتنے جارحانہ نظر نہیں آئے جتنے نتیش اور تیجسوی کے حلف لینے کے بعد نظر آئے۔ سشیل مودی صرف تیجسوی یادو کو ہی نہیں ڈرا رہے ہیں بلکہ ان کے لب و لہجہ سے یہی لگتا ہے کہ وہ آر جے ڈی کو نتیش کمار سے خبردار بھی کررہے ہیں کہ تیجسوی کے جیل جانے کی صورت میں نتیش آر جے ڈی توڑ کر حکومت کریں گے۔ سشیل کمار مودی اپوزیشن کے طور پر دونوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں یا دونوں کے مشیر کے طور پر اپنی باتیں کررہے ہیں۔ سشیل مودی کا یہ بھی کہنا تھا کہ راشٹریہ جنتا دل نے نتیش کو دو مرتبہ اور بی جے پی نے پانچ مرتبہ چیف منسٹر بنایا۔ جواب میں نتیش کا کہنا ہے کہ وہ چیف منسٹر نہیں بننا چاہتے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2020ء کے انتخابات میں نریندر مودی کے نام پر اور ان کی مقبولیت کے نتیجہ میں ووٹ ملے ہیں تو پھر بی جے پی نے نتیش کمار کو وزیراعظم کے عہدہ پر فائز کیوں کیا؟ کیا بی جے پی نتیش کمار کو عزت دینے کے معاملے میں گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈس میں اپنا نام درج کروانے کی خواہاں تھی یا کوئی اور بات تھی؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی کو صرف بی جے پی کے ووٹ ملے اس میں نتیش کمار کے چاہنے والوں رائے دہندوں کے ووٹ شامل نہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بہار میں بی جے پی کو باہر کا راستہ دکھانے کے ساتھ ہی سشیل کمار مودی مہاراشٹرا میں شیوسینا کو توڑنے اس کی اتحادی حکومت گرانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اس کا سہرا بی جے پی کے سر باندھ رہے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی اس کی تردید کررہی ہے۔ بی جے پی پر یہ الزامات عائد کئے جاتے رہے اور کئے جارہے ہیں کہ جو کوئی اس کا اتحادی ہے۔ بی جے پی آہستہ آہستہ اسے توڑ دیتی ہے۔ اگرچہ اس کی تازہ ترین مثال مہاراشٹرا کی شیوسینا ہے لیکن یہ سوال بڑی تیزی سے گردش کررہا ہے کہ آیا آنجہانی رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی اپنے آپ ٹوٹ گئی؟ اسے کسی نے نہیں توڑا؟ خود کو مودی کا ہنومان قرار دینے والا چراغ پاسوان خودبخود سڑک پر آگیا اور اپنے بھائی کی پارٹی توڑ کر پشوپتی پارس خودبخود مودی حکومت میں وزیر بن گئے؟ کہا جاتا ہے کہ نتیش کمار کے کہنے پر بہار میں چراغ پاسوان کا چراغ گل کیا گیا اور اب نتیش کمار نے بہار سے بی جے پی کو نکال باہر کیا ہے۔ لالن سنگھ کا حالیہ بیان بتا رہا ہے کہ حساب کتاب برابر ہوگیا ہے۔ صرف شیوسینا ہی وہ پارٹی نکلی جسے سشیل کمار مودی کے مطابق بی جے پی کو توڑنا پڑا۔ شیوسینا کو توڑنے میں کس کس نے مدد کی، سشیل کمار مودی شاید اپنی آئندہ کی پریس کانفرنس میں بتائیں گے۔