بہار میں جن سوراج ‘ ٹائیں ٹائیں فش ؟

   

بہار اسمبلی انتخابات میں پہلی مرتبہ مقابلہ کرنے والی جن سوراج نے اپنی کامیابی اور امیدواروں کے تعلق سے بلند بانگ دعوے کئے تھے ۔ دوسری جماعتوں پر کرپشن اور بدعنوانیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنا کردار پاک و صاف ہونے کا دعوی کیا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ پارٹی دوسروں سے مختلف ہے اور عوامی رائے کے مطابق ایک مکمل جمہوری طریقے سے ٹکٹوں کی تقسیم عمل میں لائی جا رہی تھی ۔ جن سوراج کے سربراہ پرشانت کشور بہار میں اپنی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے دعوے بھی کر رہے تھے ۔ دوسروں پر تنقیدوں میں پرشانت کشور سب سے آگے دکھائی دے رہے تھے تاہم اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس نے جن سوراج کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ پارٹی کی انتخابی شروعات ہی انتہائی گہما گہمی اور نراج کی کیفیت کے ساتھ ہوئی ہے ۔ جن سوراج نے اپنے امیدواروں کی دو فہرستیں جاری کی ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح ہی جن سوراج میں ٹکٹس کی تقسیم پر شدید ناراضگی پیدا ہوگئی ہے اور کئی افراد نے جو ٹکٹس کے خواہش مند تھے یہ دعوے شروع کردیئے ہیں کہ جن سوراج میں ٹکٹس تقسیم نہیں کئے گئے بلکہ ٹکٹوں کی باضابطہ فروخت ہوئی ہے اور جس کسی نے زیادہ بولی لگائی ہے ٹکٹس اُسے فروخت کردیئے گئے ہیں۔ جن سوراج ٹکٹ کے خواہشمند قائدین کا کہنا ہے کہ پرشانت کشور نے انہیں ایک طرح سے دھوکہ دیا ہے ۔ انہوں نے پارٹی کارکنوں اور قائدین کی رائے کے مطابق ٹکٹس تقسیم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم کئی ایسے افراد کو ٹکٹس دیئے گئے جو پارٹی کو مستحکم بنانے میں کہیں بھی شامل نہیں تھے اور انہیں دوسری جماعتوں سے لا کر بھاری رقومات کے عوض ٹکٹس دیئے گئے ہیں۔ کئی قائدین کا تو یہ دعوی ہے کہ جن سوراج کا قیام انتخابات میں سنجیدگی سے مقابلہ کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کیلئے عمل میں نہیں لایا گیا ہے بلکہ بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے جن سوراج نے کام کرنا شروع کیا ہے ۔ یہ ایک طرح سے سنگین الزامات ہیں اور جس طرح سے انتخابی سفر شروع ہوا ہے وہ انتہائی غیرمتوقع ہی کہا جا رہا ہے ۔ عوام کو اس کی امید نہیں تھی ۔
جہاں ٹکٹس کی تقسیم میں بے قاعدگیوں اور رقومات بٹورنے کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں وہیں یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ خود پرشانت کشور اسمبلی انتخابات میں مقابلہ نہیں کریں گے ۔ پرشانت کشور یہ اشارے دے رہے تھے کہ وہ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کے خلاف ان کے حلقہ انتخاب راگھوپور سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ پرشانت کشور نے چند دن قبل راگھو پور کا دورہ بھی کیا تھا ۔ اس موقع پر ایک بڑی بھیڑ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ تاہم یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ دوسری جماعتوں کی طرح پرشانت کشور کے قافلہ میں بھی عوام کو پیسے دے کر لایا گیا تھا ۔ کئی شرکاء نے خود اعتراف کیا تھا کہ انہیں فی کس 300 روپئے دے کر یہاں بلایا گیا ہے ۔ ایک تو پرشانت کشور کے انتخابی مقابلہ میں حصہ نہ لینے کے فیصلے سے بھی ان کے حامیوں میں مایوسی پیدا ہوگئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے راگھوپور کے دورہ کے موقع پر صورتحال کو سمجھ لیا ہے اور اپنی شکست سے بچنے کیلئے وہ مقابلہ سے دور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے قافلہ میں رقومات تقسیم کرکے عوام کا ہجوم جمع کرنا بھی ان کی مقبولیت کے دعووں کو بے نقاب کرتا ہے ۔ پرشانت کشور بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جس کے لئے دوسری جماعتوں پر الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ اس طرح وہ دوسری جماعتوںا ور جن سوراج میں کوئی فرق واضح کرنے اور عوام کا دل جیتنے میں ناکام ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ جو الزامات بی جے پی کی مدد کے عائد کئے جا رہے ہیں ان کو ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد تقویت بھی حاصل ہونے لگی ہے ۔
سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کرنا اور انتخابی میدان میں مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ پرشانت کشور بھلے ہی کئی سیاسی جماعتوں کیلئے حکمت عملی ساز کا رول ادا کرچکے ہیں لیکن وہ بذات خود انتخابی میدان میں مقابلہ سے قبل ہی عوامی تائیدو اعتماد حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ جس طرح سے ٹکٹوں کی فروخت کے الزامات عائد ہو رہے ہیں اور جس طرح سے بی جے پی کی مدد کے شبہات تقویت پا رہے ہیں ان کے پیش نظر بہار کے عوام کو کسی دھوکہ میں آنے سے بچنا چاہئے ۔ اپنی سمجھ بوجھ اور اپنے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں کسی امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔