ملک میںاترپردیش کے بعد سیاسی اعتبار سے بہار بھی ایک انتہائی اہمیت کی حامل ریاست ہے اور یہاں جاریہ سال کے اواخر تک اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ویسے تو ملک کی ہر ریاست میں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہوتے ہیںسیاسی سرگرمیاں تیز ہوجاتی ہیں تاہم بہار کی جہاںتک بات ہے تو یہاںسیاسی سرگرمیاں بہت زیادہ تیز ہوگئی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہار میںبرسر اقتدار اتحاد میں ہی بے چینی کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے ۔ برسر اقتدار اتحاد کو ہی اپنے مستقبل کا یقین نہیںہے اورا پوزیشن کی صفوںمیں بھی قطعیت کے ساتھ اطمینان بخش صورتحال دکھائی نہیں دیتی ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے بہار میں اسمبلی انتخابات کے دوران یا انتخابات کے بعد از سر نو سیاسی صف بندیوں کے اشارے بھی دئے جارہے ہیںاور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ نتیش کمار ایک بار پھر اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کیلئے تیار ہوسکتے ہیں۔ آئندہ وقتوںمیںکیا کچھ ہوگا یہ تو فی الحال کہا نہیں جاسکتا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات کے پیش نظر بہار میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے میںکوئی بھی پارٹی پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہے اور ایک دوسرے پرسبقت لیجانے کیلئے ہر پارٹی کوشش کر رہی ہے ۔ نتیش کمار آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل ایک ایسی صورتحال کا شکار ہیں جس میں انہیں اپنا سیاسی مستقبل محفوظ نظر نہیں آ رہا ہے ۔ نتیش کمار ایک سے زائدمرتبہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے چیف منسٹر کی کرسی بچانے میں کامیاب رہے ہیںلیکن اس بار انتخابات کے بعد وہ چیف منسٹر رہیں گے یا نہیں یہ کہا نہیں جاسکتا ۔ ویسے بھی بہار میں این ڈی اے اتحاد کیلئے اقتدار کی برقراری آسان دکھائی نہیں دے رہی ہے کیونکہ اس اتحاد کے خلاف عوام میں بیزاری کے اشارے ملنے شروع ہوگئے ہیں۔ اس کے برخلاف بی جے پی کے تعلق سے بھی کہا جا رہا ہے کہ اس نے بھی نتیش کمار کے خلاف دائرہ تنگ کرنا شروع کردیا ہے ۔ حالانکہ ابھی واضح طور پر بی جے پی نے نتیش کمار کو کوئی پیام دیا نہیں ہے ۔
بی جے پی جس طرح مہاراشٹرا میں ایک معیاد تک صبر کے ساتھ کام کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات کے بعد اقتدار حاصل کرچکی ہے اور اپنا چیف منسٹر بناچکی ہے وہی حال بہار میں دہرائے جانے کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ ان ہی اندیشوں نے نتیش کمار اور ان کے حامیوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ نتیش کمار اس بے چینی کا کھل کر اظہار کرنے کے موقف میں بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ بی جے پی ابھی سے اپنے منصوبوںکا اظہار کرنے تیار نہیں ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوجائے جس کے بعد اچانک ہی وہ چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے اپنی دعویداری پیش کرے گی اور اس کیلئے بی جے پی کے پاس چراغ پاسوان کی تائید رہے گی ۔ چراغ پاسوان پہلے ہی سے نتیش کمار کے مخالفین میںشمار کئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجودبی جے پی نے انہیں اہمیت دی اور اپنے ساتھ ملاتے ہوئے انہیں مرکزی وزارت بھی سونپی ہے ۔ بی جے پی کے ان ہی منصوبوںکو محسوس کرتے ہوئے نتیش کمار نے آر جے ڈی کے خلاف اپنی تنقیدوں کو مزید سخت کردیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان تنقیدوںاور مخالفتوں کی وجہ سے بی جے پی ان کو چیف منسٹر کی گدی سے ہٹانے کے منصوبے پر عمل کو ملتوی کردے ۔ بی جے پی تاہم اپنے منصوبوںپر عمل آوری کے معاملے میں دوسروں کی وجہ سے کوئی تبدیلی گوارہ نہیں کرتی ۔ جو سیاسی سرگرمیاں سر عام دکھائی دے رہی ہیں اس سے زیادہ سرگرمیاں در پردہ شروع ہوگئی ہیں اور یہ اہمیت کی حامل ہیں۔
آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کے تیور بھی جارحانہ ہوگئے ہیں۔ وہ بھی اس بار کوئی موقع گنوانا نہیںچاہتے اور کسی بھی حال میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا منصوبہ ہے کہ نتیش کمار کی تائید کے بغیر انڈیا اتحاد کی جماعتیں ہی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے نتیش کمار اور بی جے پی کے خلاف اپنی تنقیدوںکو مزید سخت کردیا ہے اور عوام میں حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میںمصروف ہوگئے ہیں۔ بہار میں جو سیاسی ماحول گرم ہوا ہے اس کے اثرات یقینی طور پر انتخابات اور نتائج کے بعد کی صورتحال میں دیکھنے میں آئیںگے ۔ تاہم ابھی سے ان کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہوگا ۔