زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں
ٹوٹنا جسکا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں
بہار میں قطعی ووٹر لسٹ کی اجرائی بالآخر عمل میں آگئی ہے ۔ جو فہرست آج جاری کی گئی ہے اس کے مطابق یکم اگسٹ کو جاری کردہ مسودہ ووٹر لسٹ سے 18 لاکھ ناموں کا اضافہ ہوا ہے ۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جو مسودہ جاری کیا گیا تھا اس میں لاکھوںکی تعداد میں ناموں کو کسی جانچ پڑتال اور اطمینان بخش کارروائی کے بغیر ووٹر لسٹ سے خارج کردیا گیا تھا جنہیں اب اپوزیشن کی مسلسل کوششوں اور تنقیدوں کے بعد شامل کرلیا گیا ہے ۔ بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کے مسئلہ پر سپریم کورٹ میں بھی سماعت جاری ہے اور عدالت نے یہ واضح کردیا تھا کہ اگر نطرثانی کا عمل اطمینان بخش طریقہ سے نہیں کیا گیا تو اس سارے عمل کو ہی برخواست کردیا جائے گا اور خصوصی نظرثانی سے قبل جو فہرست تھی اس کو ہی برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔ اس طرح یہ ابھی طئے نہیں کہا جاسکتا کہ آج جاری کردہ فہرست کے مطابق ہی بہار میںاسمبلی انتخابات ہونگے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات کے شیڈول کا آئندہ ہفتے اعلان ہوسکتا ہے اور اگر عدالت خصوصی نظرثانی کے عمل سے مطمئن نہیں ہوتی ہے تو پھر سابقہ فہرست کی بنیاد پر ہی رائے دہی ہوسکتی ہے ۔ آئندہ وقتوں میں کیا ہوگا یا کیا ہونے والا ہے یہ تو عوام پر عیاں ہوجائے گا تاہم یہ بات یقینی طور پر کھل کر سامنے آگئی ہے کہ الیکشن کمیشن نے مسودہ فہرست کی جو اجرائی عمل میں لائی تھی وہ کام اطمینان بخش طریقہ سے نہیں کیا گیا تھا ۔ یہ درست ہے کہ مسودہ کی اجرائی کے بعد ہمیشہ ہی ناموں کی شمولیت اور اخراج پر اعتراضات و ادعا جات پیش کرنے کا موقع دستیاب رہتا ہے لیکن جتنی تعداد میں اس بار بہار میں نام دوبارہ شامل ہوئے ہیںاتنی تعداد میں کبھی بھی نہیں ہوا تھا ۔ اگر الیکشن کمیشن کو خصوصی نظرثانی کے بعد دوبارہ 18لاکھ نام فہرست رائے دہندگان میں شامل کرنے پڑ رہے ہیں تو یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے اور اس سے کمیشن کے اختیار کردہ طریقہ کار پر یقینی طور پر سوال پیدا ہوسکتے ہیں اور ہو رہے ہیں ۔ ان ہی سوالات کو بنیاد بناتے ہوئے کئی جماعتوںاور تنظیموں نے سپریم کورٹ کا دروازۃ کھٹکھٹایا ہے اور عدالت کی جانب سے سارے عمل پر نظر رکھی گئی ہے ۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہا جاتا ہے ۔ ہندوستان ہی میں اگر جمہوری عمل کے تعلق سے اس طرح کا لاپرواہی والا رویہ اختیار کیا جائے اور فہرست رائے دہندگان سے بے بنیاد طریقے سے ناموں کو حذف کردیا جائے تو اس کے نتیجہ میں ملک کا جمہوری عمل متاثر ہوگا اور یہ عمل کھوکھلا ہو کر رہ جائے گا ۔ ملک کا جمہوری عمل ہی وہ ایک طریقہ ہے جو عوام کو طاقتور بناتا ہے ۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ کسی کو بھی اقتدار پر فائز کرسکتے ہیں اور کسی کا بھی اقتدار چھین سکتے ہیں۔ اگر فہرست رائے دہندگان ہی بہتر اور موثر ڈھنگ سے تیار نہ کی جائے اور اس میں ووٹرس کے نام کسی جانچ کے بغیر شامل کرلئے جائیں یا کسی اطمینان کے بغیر انہیں خارج کردیا جائے تو سارے جمہوری عمل پر سوال پیدا ہونے لگتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک میں جمہوریت کا محافظ ہے اور جمہوری عمل کو تقویت دینے اور اسے مستحکم کرنے کا ذمہ بھی الیکشن کمیشن ہی کا ہے ۔ ایسے میں اگر کسی بھی معاملے میں کسی طرح کی لاپرواہی کی جاتی ہے یا تغافل برتا جاتا ہے تو پھر الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری اور اس کے وجود پر ہی سوال پیدا ہونگے ۔ اگر الیکشن کمیشن کو عدالتی پھٹکار کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا عدالتیں کسی طرح کی سرزنش کرتی ہیں تو پھر عوام کی نظروں میں الیکشن کمیشن کا مقام ختم ہوجائے گا اور اس کی غیر جانبداری پوری طرح سے مشکوک ہوجائے گی ۔
جس طرح سے مختلف مواقع پر الیکشن کمیشن نے رویہ اختیار کیا تھا اس پر پہلے ہی عوام کے ذہنوں میں سوال اور شبہات دونوں ہی پیدا ہونے لگے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن برسر اقتدار جماعت کا آلہ کار بنتے ہوئے یا پھر برسر اقتدار جماعت کی مدد کیلئے کام کر رہا ہے اور غیرجانبداری کے ساتھ جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہو رہا ہے ۔ کمیشن کو ملک کی جمہوریت کے استحکام اور اس کے تحفظ کیلئے پوری پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ نہ صرف بہار بلکہ سارے ملک میں کوئی بھی ہندوستانی شہری ووٹ کے حق سے محروم ہونے نہ پائے ۔