آکے اک لمحہ ٹل گیا طوفاں
حد سے آگے نکل گیا طوفاں
بہار میں ایک دواخانہ میں پانچ افراد داخل ہوئے اور انہوں نے ایک مریض کے روم میں پہونچ کر اس پر گولیوں کی برسات کردی ۔ پھر وہاں سے واپس چلے گئے ۔ یہ کسی بالی ووڈ فلم کا منظر نہیں بلکہ بہار میں لا اینڈ آرڈر کی تلخ حقیقت ہے ۔ بہار میں حالیہ دنوں میں قتل و خون کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوگیا ہے اور کوئی بھی کہیں بھی کسی کو بھی گولی مار رہا ہے ۔ حملہ آور گولیں برسا رہے ہیں اور پھر مقام واردات سے فرا اختیار کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف پولیس اسٹیشنوں میں مقدمات درج ہو رہے ہیں اور پھر کچھ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بہار میں قتل کی بے دریغ وارداتیں پیش آ رہی ہیں ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ وارداتیں اور قتل و خون بہار کے کسی دور دراز علاقہ میں یا کسی پسماندہ گاوں میں پیش نہیں آ رہی ہیں بلکہ یہ سب کچھ بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ہو رہا ہے اور حکومت اس طرح کے معاملات پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ آج بہار کے ایک دواخانہ میں چندن مشرا نامی شخص کو پٹنہ کے دواخانہ میں گولی مار دی گئی ۔ چندن مشرا خود بھی قتل و دیگر مقدمات میں ملوث بتایا گیا ہے ۔ وہ طبی بنیادوں پر پیرول پر رہا ہوا تھا اور پٹنہ کے ایک دواخانہ میں زیر علاج تھا ۔ اس دواخانہ میں نا معلوم افراد پہونچے اور انہوں نے چندن مشرا کا کام تمام کردیا ۔ حملہ آوروں کی آمد اور ان کی روانگی سی سی ٹی وی کیمروں میں قید ہوگئی ۔ اس سارے واقعہ میں پولیس کا کہیں بھی وجود نظر نہیں آیا ۔ اگر کوئی مجرم جیل سے دوران قید پیرول پر رہا ہوتا ہے تو اس کی سکیوریٹی اور اس کی نقل و حرکت پر نگرانی کیلئے پولیس دستے کو متعین کیا جاتا ہے ۔ چندن مشرا تو ایک عادی مجرم بتایا گیا ہے ۔ وہ خود کئی مقدمات میں ملوث تھا اور پیرول پر رہا ہوا تھا تو پھر اس کی سکیوریٹی یا اس کی نقل و حرکت کیلئے پولیس دستہ کیوں متعین نہیں کیا گیا تھا ۔ اگر کیا گیا تھا تو پھر وہ عملہ کہاں چلا گیا تھا ۔ اب یہ شبہ کیا جا رہا ہے کہ دواخانہ کے سکیوریٹی گارڈز بھی اس معاملہ میں ملوث ہوسکتے ہیں ۔ پولیس کے رول پر بھی سوال پیدا ہونے لگے ہیں تو اس تعلق سے بھی تحقیقات کروائی جانے کی ضرورت ہے تاکہ تمام حقائق کو منظر عام پر لایا جاسکے ۔
حالیہ عرصہ میں قتل کی کئی وارداتیں پیش آئی ہیں۔ جہاں تک حکومت اور چیف منسٹر نتیش کمار یا ان کی حلیف بی جے پی کا سوال ہے یہ کسی طرح کے رد عمل کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ بی جے پی ہو یا نتیش کمار ہوں یہ سب 20 سال پرانی لالو پرساد یادو حکومت پر تنقیدیں کرتے رہے تھے کہ انہوں نے بہار کو جنگل راج میں تبدیل کردیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دو دہوں کا عرصہ گذرجانے کے بعد بہار میں اب جنگل راج دکھائی دے رہا ہے اور عوام اب خود کو محفوظ متصور نہیں کر رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں قتل کی جتنی وارداتیں پیش آئی ہیں ان کے مقاصد اور محرکات کیا ہے ان سارے معاملات کی جانچ کروائی جانی چاہئے ۔ بہار میں کچھ مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں اس طرح کی وارداتوں کے پس پردہ محرکات کا پتہ چلانا بھی ضروری ہے اور چیف منسٹر نتیش کمار ہوں یا بی جے پی کے قائدین ہوں جو طویل عرصہ سے حکومت میں شامل ہیں انہیں ریاست کے عوام کو اپنی بیس سالہ کارکردگی پر وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ لا اینڈ آرڈر کی انتہائی ابتری اور قتل کے واقعات پر عوام کو جواب دینا چاہئے اور عوام میں جو عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے اس کو دور کرنے کیلئے کیا کچھ اقدامات کئے جا رہے ہیں ان سے عوام کو واقف کروانے کی بھی ضرورت ہے ۔ صرف خاموشی اختیار کرتے ہوئے عوام کو مجرمین کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا اور نہ ہی اس سلسلہ کو مزید دراز ہونے کا موقع دیا جاسکتا ہے ۔
بہار پولیس اور خاص طور پر پٹنہ پولیس کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ قتل کی وارداتوں کا سلسلہ جاری رہنے پر پولیس عہدیداروں سے جواب طلب کیا جانا چاہئے ۔ ایسی وارداتوں کے جو کچھ بھی محرکات ہیں ان کا پتہ چلاتے ہوئے ان کا سدباب کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اسمبلی انتخابات سے عین قبل اس طرح کی لا قانونیت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ نتیش کمار کو بھی اس معاملے میں حرکت میں آنا چاہئے اور بی جے پی کو بھی ریاست کے عوام کو اس پر جواب دینا چاہئے ۔ یہ سلسلہ انتخابی عمل تک برقرار رہا تو اس کے اثرات انتخابی عمل پر مرتب ہونے کے اندیشے مسترد نہیں کئے جاسکتے ۔