بہار میں مسلمانوں کی سیاسی محرومی

   

عبدالرحمن
بہار نامور مذہبی اور سماجی مصلحین کی سرزمین ہے جو نہ صرف معاشرتی مذہبی اعمال میں اصلاح کرنا چاہتے ہیں بلکہ سماجی مساوات، سماجی خیرسگالی اور سماجی انصاف کی بھی تائید میں ہیں۔ یہ تمام امن اور خیرسگالی کے کلیدی عناصر ہیں۔ یہ نہ صرف مہاتما گوتم بدھ، مہاتما مہاویر جین، راجا چندر گپت موریہ، شہنشاہ اشوک وغیرہ کی سرزمین ہے بلکہ جئے پرکاش نارائن، بی پی منڈل، کارپوری ٹھاکر وغیرہ بھی یہیں کے سپوت تھے، انہوں نے محروم افراد کے اتحاد کی تجویز پیش کی اور کہا کہ ان میں مساوات کے ذریعہ اتحاد اور یکجہتی پیدا کی جانی چاہئے۔ اسی طرح استحصال کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
یہاں پر ایک طاقتور سماجی انصاف کی اقدار پائی جاتی ہیں جو سماجی ہم آہنگی کے بنیادی اصول، امن اور اخوت سے پیدا ہوئی ہیں۔ یہ تمام سماج میں سماجی انصاف قائم کرنے کے اصول ہیں جن کا آغاز شہنشاہ اشوک نے مہاتما گوتم بدھ کے فلسفے کی بنیادی اقدار کو اپنی مملکت میں رائج کرنے کے ذریعہ پیدا کیا تھا۔ جئے پرکاش نارائن کے بموجب جمہوریت پسند سوشل ازم حقیقی جمہوریت ہے اور سماجی انصاف کا نظریہ، سوشل ازم کا نظریہ سماجی انصاف کی بہار میں سماجی ہم آہنگی کی راہیں کھولنے والے کارپوری ٹھاکر نے دیگر پسماندہ طبقات کو سرکاری ملازمتیں دیں اور تعلیمی اداروں میں ان طبقات کے کوٹہ میں سے ضمنی گروپس کے لئے نشستیں مختص کیں۔ وہ چاہتے تھے کہ سماجی انصاف کا نچوڑ حکمت عملی کے طریقہ سے اپنائیں۔ بی پی منڈل کا نظریہ مجبور تمام طبقات بشمول شودر اتحاد تھا۔
لالو پرساد یادو، شرد یادو، نتیش کمار، رام ولاس پاسوان وغیرہ جئے پرکاش نارائن کی تحریک کے نتیجہ میں ابھرے تمام طبقات کو ان سے سماجی انصاف کی توقع تھی جو سماجی، جذباتی اور خاص طور پر سیاسی مساوات پر مبنی ہو وہ کافی نمائندگی پولیس اور حکمرانی میں چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مکمل طور پر سماجی انصاف تحریک پٹری سے اتر گئی۔ آج کا سماج مکمل طور پر اونچے طبقہ کے گروپس جیسے برہمنوں، راجپوتوں، بھومی ہاروں اور کشتریوں پر مشتمل تھا۔ ہندو اور مسلمان دیگر پسماندہ طبقات دو بڑے سماجی گروپ تھے جو سیاسی نمائندگی اور حکمرانی میں شرکت سے محروم رہے۔ یادو، کرمی اور کوئند نے سیاسی شعبہ میں اہم مقاموں پر قبضہ کرلیا۔ راشٹریہ جنتادل، جنتادل یونائیٹیڈ اور راشٹریہ لوک سمتا پارٹی، لالو یادو، نتیش کمار اور اوپیندر کشواہا کے علی الترتیب زیر قیادت ہیں۔
نچلی ذاتوں کے دیگر پسماندہ طبقات جیسے ملاح اور بین (ماہیگیر)، لوہار، بڑھئی، تراہا (ترکاری فروش)، کمہار، نوہیا (زمین کھودنے والے) وغیرہ ہیں۔ بہار کی سیاست میں ان سب کو زیادہ نمائندگی حاصل ہوئی ہے۔ سیاسی طور پر عدم نمائندگی مسلمانوں کی ہے کیونکہ وہ ترقی یافتہ نہیں ہیں اور فرقہ وارانہ سیاست ریاست میں تشویشناک حد تک فروغ پارہی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے بموجب بہار میں مسلمانوں کا فیصد 17.55 ملین اور سیاسی نمائندگی اس دوسری بڑی اکثریت کی جو بہار میں سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہیں جو 1952 سے جبکہ بہار اسمبلی کے انتخابات ہوئے تھے برقرار ہے۔ مسلمان اپنی آزادی کے تناسب میں سیاسی شعبہ میں مقام حاصل نہ کرسکے۔ یہ ان کی سب سے پہلی سیاسی محرومی ہے۔

1952 سے 2015 تک بہار اسمبلی کے 15 انتخابات جملہ 334 مسلمان ارکان اسمبلی کو منتخب کرسکے جو راست طور پر 4593 منتخبہ ارکان اسمبلی میں شامل تھے۔ آبادی کے تناسب میں 633 مسلم ارکان اسمبلی منتخب ہونے چاہئے تھے۔ تاہم مسلمان 299 ارکان اسمبلی تھے محروم رہے جو 47.24 فیصد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہار میں مسلمان بڑے پیمانے پر سیاسی محرومی کا شکار ہیں۔ دیگر بیشتر ریاستوں کے برعکس بشمول آسام، یوپی اور مغربی بنگال بہار اسمبلی کا بھی ایک مقام ہے لیکن مسلم ارکان کی تعداد 17 اور 29 کے درمیان برقرار رہی ہے۔ 1985 میں اس کے 29 ارکان تھے جس کا اعادہ 2000 میں بھی ہوا۔ 1952 اور 1957 کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ مسلم ارکان ہندوستانی قومی کانگریس (INC) کے تھے۔ 1962 میں مسلم سیاسی قائدین مختلف سیاسی گروپس سے منتخب ہوئے۔ 1977 میں جنتا پارٹی کو 13 فیصد کانگریس کو 8 مسلم ارکان اسمبلی حاصل ہوئے جبکہ مسلم ارکان اسمبلی کی جملہ تعداد 24 رہی۔ 1980 تا 1985 یہی تعداد برقرار رہی۔ بہار انتخابات میں کانگریس ملک گیر سطح پر واپس آگئی۔ یہ دور مسلم دوست انتخابی رجحان کا دور تھا۔ کانگریس نے بہار کے مسلمانوں کو اعظم ترین نمائندگی دی اور 1985 میں 29 ارکان اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1990 سے جبکہ جے ڈی تشکیل دیا گیا۔ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والا یہ سب سے بڑا گروپ تھا۔
تین انتخابات کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان بہار اسمبلی انتخابات میں سب سے کم نمائندگی کے حامل رہے۔ آزاد ہند میں وہ صرف 6.58 فیصد نمائندگی کرسکے۔ محبوب علی قیصر 2009 کے ضمنی اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب رہے اور ارکان اسمبلی کی تعداد بڑھ کر 17 (7 فیصد) ہوگئی۔ آبادی میں تناسب کے اعتبار سے انہیں 40 نشستیں حاصل ہونا چاہئے تھا لیکن وہ 17 نشستیں حاصل کرکے 23 نشستوں کے نقصان میں رہے۔ آر جے ڈی کو 4، کانگریس کو 5، ایل جے پی کے جملہ مسلم امیدوار 47 تھے لیکن صرف ایک کامیاب ہوا۔ جے ڈی یو نے 9 امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں 4 کامیاب ہوئے۔ سی پی آئی ایم ایل کا ایک، این سی پی کا ایک اور ایک آزاد امیدوار کامیاب رہا۔

حیرت انگیز لیکن اہم بات یہ ہے کہ 2005 کے بہار اسمبلی انتخابات میں 42 مسلم امیدوار تھے جو دوسرے مقام پر رہے اور وہ بھی بہت کم ووٹوں کے فرق سے جو صرف ایک ہزار سے کم ووٹوں کا تھا۔ وجوہات یہ ہوسکتی ہیں کہ برسر اقتدار آر جے ڈی سے عوام ناراض تھے اور جے ڈی یو نے کم تعداد میں مسلم امیدوار کھڑے کئے تھے۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مسلم ووٹ جے ڈی یو اور بی جے پی میں تقسیم ہوگئے۔ حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت نے جے ڈی یو کو ووٹ دیا تھا۔
ان تمام تجزیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر سماجی انصاف کا ایک وسیع طیف ہے جو بہار میں اپنے حقیقی قد و خال کے ساتھ موجود ہے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ درجہ فہرست ذاتیں، درجہ فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات سیاست اور حکمرانی میں اپنی آبادی کے تناسب سے مناسب حصہ سے محروم رہے۔ سیاسی پارٹیوں کے لئے اور ان کی قیادت کے لئے اب وقت آگیا ہے کہ ایسا معیار پیش کریں جو ان کی تنگ نظر سیاسی فکر سے ماورا ہو۔ وسیع ذہنیت اختیار کریں اور بہار کے مسلمانوں کو فراخدلی کے ساتھ ترقی دیں۔