بہار میں ملازمتوں کی ضرورت لیکن نتیش کمار ’’1974 کے بیچ کے مرض میں مبتلا‘‘

   

ڈی کے سنگھ
پٹنہ کے فریزر روڈ چوراہے پر آویزاں پوسٹر میں مکمل طور پر واضح کردیا گیا ہے کہ ’’جس نے کرایا پلوں کا نرمان وہی کھولے گا وکاس کے دوار، بھاجپا ہے تو بھروسہ ہے‘‘ جس نے پل تعمیر کروائے ہیں وہی ترقی کی راہیں بھی کھولے گا اور نریندر مودی کے حوالہ سے پیغام دیا گیا ہے کہ اگر بی جے پی ہے تو اعتماد بھی کیا جاسکتا ہے۔ بہار میں مودی کی انتخابی مہم میں نتیش کمار نے شرکت نہیں کی جبکہ 2010 کے اسمبلی انتخابات ہونے والے تھے اس نے بہار میں تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا لیکن اب وہ مودی کے سامنے ان کے دفاع کے لئے تیار نظر آتے ہیں اس لئے اس بات کو غلط سمجھا جائے؟ نتیش کمار طرز کی سیاست کو کیا ہوگیا ہے۔
مودی یو ایس پی ہیں
بہار کے رائے دہندوں کے گروپس میں اگر تبدیلی آچکی ہے اور وہ 18 تا 22 گھنٹے برقی سربراہی سے متاثر ہوچکے ہیں جو قندیل دنوں کی بہ نسبت ایک اونچی چھلانگ ہے اس لئے بجلی ۔ پانی ۔ سڑک نعرہ اب کارآمد نہیں رہا۔ کئی فلاحی اسکیمس موجود ہیں جو ہر مرحلہ میں انسانی زندگیوں سے قربت رکھتی ہیں جن کا آغاز بچے کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد کے دور سے ہے۔ ان میں حاملہ خواتین کے لئے راشن، ٹیکے، دوپہر کے کھانے، سائیکلیں اور اسکولی بچوں کے لئے یونیفارمس کی سربراہی رعایتی قیمت پر غذائی اجناس کی سربراہی یا مفت سربراہی، گھروں کی تعمیر کی اسکیم، غریب خاندانوں کے افراد کے لئے وظیفے اور امداد ان کی مفت آخری رسومات اور دیگر فلاحی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔
اس لئے عوام کے ایک طبقہ کو حکومت کی تبدیلی کا انتظار ہے۔ کئی انتہائی پسماندہ طبقات اور مہادلت یا دلت ہیں۔ یہ تمام نتیش کمار حکومت کی تائید کرتے ہیں تاہم انہوں نے اپنے وعدہ کی پابندی کا اعلان نہیں کیا۔ بہار میں این ڈی اے اس بار کامیاب رہے نہ رہے لیکن دو وعدوں کی تکمیل ضرور کی جائے گی چاہے انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں۔ پہلا تیقن یہ ہے کہ بہار میں مودی پہلے سے زیادہ مقبول ہو جائیں گے اور یہ مقبولیت ذات پات، عقائد اور طبقہ جات سے بالاتر ہوگی جو لوگ این ڈی اے کو ووٹ ڈالیں گے صرف اسی لئے ڈالیں گے کہ نتیش کمار کو مودی کی تائید حاصل ہے۔

بے شک نتیش کمار نے بھی مقبولیت حاصل کی ہے اور انتہائی پسماندہ طبقات، مہادلت اور دلت عوام کی اکثریت انہیں پسندیدہ شخصیت قرار دیتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ریاست میں کوئی تبدیلی لانے سے قاصر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا اس کی وجوہات ہنوز نامعلوم ہے۔
1974 بیچ کی بیماری
دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی رائے دہندے تھوڑے سے غیر واضح بدلاؤ کا احساس رکھتے ہیں ریاستی سرکاری عہدہ دار خاص طور پر سینئر آئی اے ایس عہدہ دار غلطی کا اچھی طرح احساس رکھتے ہیں لیکن نتیش کمار ’’1974 بیچ کی بیماری‘‘ میں مبتلا ہیں۔
وہ قائدین کے ایک گروپ کا حوالہ دیتے ہیں۔ نتیش، لالو یادو اور رام ولاس پاسوان کا اور دیگر کا حوالہ دیا جاتا ہے جنہوں نے جئے پرکاش نارائن کی 1974 طلبہ تحریک میں شمولیت اختیار کرکے شہرت حاصل کی تھی۔

نتیش کمار اور لالو یادو ۔ رابڑی دیوی کی تائید میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے والے ایک خاتون سرکاری عہدہ دار نے مجھ سے کہا کہ نتیش کمار کی حکمرانی بجلی۔ پانی۔ سڑک کے نعرہ کی بنیاد پر اور سماجی انجینئرنگ کے رہنمایانہ خطوط پر جو لوہیا کے سماجی انصاف کی بنیاد ہیں نظر اندازکردیئے گئے تھے ۔ ان کے کئی ساتھیوں نے اسی قسم کے خیالات ظاہر کئے تاہم قائدین کی فہرست میں چند ناموں کا بھی اضافہ کیا۔
کام کی تکمیل
نتیش کمار اب آر جے ڈی میں اپنے آپ کو مشکلات میں مبتلا دیکھ رہے ہیں۔ تیجسوی یادو نے اپنے انتخابی وعدوں میں 10 لاکھ روزگار کے مواقع بھی شامل کئے ہیں اور یہ تیقن عوام کے لئے انتہائی پرکشش ہے جبکہ بی جے پی نے اس مسئلہ سے بے تعلقی اختیار کی ہے اور جوابی وار کے ذریعہ 19 لاکھ روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا تیقن دیا ہے۔ نتیش کمار نے ان تمام تیقنات کو بیکار قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے اور عوام کو الجھن کا شکار بنانے اور مسائل میں مبتلا کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ 10 لاکھ سرکاری ملازمتوں کے لئے 50 ہزار کروڑ روپے کی رقم درکار ہوگی۔ یہ لوگ یہ رقم کہاں سے لائیں گے۔
جھانجھاپور کے پھول پراس انتخابی حلقہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ جمعہ کی شام کو وزیر سنجے کمار جھا نے کہا تھا کہ یہ اچھی بات ہے کہ بعض نوجوان افراد کی آرزووں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ وجہ ترقی کے لئے ضروری ہے۔ بہار میں اب ترقی کا وقت آگیا ہے یہاں پر صنعتیں قائم کرنے کی بات ہو رہی ہے لیکن پانی، سڑکوں اور برقی توانائی کے بغیر صنعتیں کیسے قائم کی جاسکتی ہیں؟ مودی جی اور نتیش جی ایسی صنعتیں قائم کرسکتے ہیں حاضرین میں موجود نوجوانوں نے ان کی اس بات پر زوردار تالیاں بجائی تھیں۔ تالیوں کے شور کی آواز ابھی تک نتیش کمار کے کانوں تک نہیں پہنچی ورنہ وہ جان جاتے کہ انہیں نئے نظریات سیکھنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے وہ مقبولیت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ نتیش کمار کے بارے میں نامور صحافی ارون سنہا نے تحریر کیا ہے کہ وہ اور ان کے دوست نتیش کمار کے دورہ کی خبریں روانہ کررہے تھے بحیثیت چیف منسٹر نومبر 2010 کو ان کی دوسری میعاد شروع ہونے والی تھی۔ میری خواہش ہے کہ وہ اس سے پہلے انگلش سیکھ لیتے تو بہتر تھا۔
سنہا نے ان کے سامنے گرقی ہو جمہوری حکومت کا نظریہ پیش کیا۔ اگر نریندر مودی تقریر میں تھیساورس اور آکسفورڈ کلکشنس نامی کتاب کے اقتباسات نتیش کمار کو پیش کرتے تو ممکن تھا کہ وہ اپنی انتخابی مہم کا انداز تبدیل کردیتے اور نوجوان رائے دہندوں سے کہتے کہ وہ نئے نظریات پر عمل کریں اور برقی توانائی کے بارے میں پرانے نظریات ترک کردیں۔ وہ کبھی اپنی تقریروں میں یہ نہ کہتے کہ اگر وہ دوبارہ منتخب کرلئے جائیں تو شمسی توانائی ریاست بہار میں لے آئیں گے۔