کہیں پر ظلم کے شعلے کہیں پر خود پرستی ہے
چمن کی آبرو خطرے میں ہے یہ بات سچی ہے
بہار کے مظفر پور میں ایک انتہائی افسوسناک اور شرمناک واقعہ پیش آیا ۔ ایک نو سالہ کمسن لڑکی کی عصمت ریزی کی گئی اور اس کا قتل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ لڑکی بعد ازاں سرکاری دواخانہ میں زخموںسے جانبر نہ ہوسکی ۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ لڑکی کو دواخانہ میں شریک کرنے کیلئے پانچ گھنٹوں تک انتظار کروایا گیا اور اس کو علاج کی سہولت فراہم نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میںلڑکی اپنی جان گنوابیٹھی ۔ مظفر پور کا واقعہ بہار کی صورتحال کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے ۔ کس طرح سے سے وہاں جنگل راج جیسی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ حکومت مجرمین اور قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کے خلاف بروقت کارروائی میں ناکام ہے تو سرکاری دواخانوں کی صورتحال کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک کمسن اور معصوم لڑکی کو دواخانہ میں شریک کرنے کیلئے پانچ گھنٹوں تک انتظار کروایا جاتا ہے ۔ سارا واقعہ ایک انتہائی شرمناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے جو بہار میں پیدا ہوئی ہے ۔ اس واقعہ پر سارے بہار میں برہمی کی لہر پیدا ہوگئی ہے اور لوگ حکومت سے سوال کرنے لگے ہیں۔ بہار میں برسر اقتدار این ڈی اے اتحاد سے بھی سوال کئے جا رہے ہیں۔ چیف منسٹر نتیش کمار اور ان کی حلیف جماعت بی جے پی بہار میں لالو پرساد یادو کے دور میں جنگل راج ہونے کے دعوی کرتی رہی ہے ۔ بہار میں حالانکہ گذشتہ 20 برسوں سے نتیش کمار چیف منسٹر ہیں لیکن اب بھی بہار میں جنگل راج کی کیفیت ہی پائی جاتی ہے ۔ ایک نو سال کی کمسن لڑکی کی عصمت ریزی کی جاتی ہے ۔ اسے قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔زخمی حالت میں لڑکی کو دواخانہ میں شریک کرنے پانچ گھنٹے انتظار کروایا جاتا ہے اور بروقت علاج کی سہولت نہ ملنے سے لڑکی کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ حقیقی جنگل راج کی کیفیت اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے ؟ ۔ چیف منسٹر نتیش کمار اور ان کی کرسی کی حفاظت کرنے والی بی جے پی کو اس پر جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ اس واقعہ پر کس طرح سے حکومت کو بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ سارے بہار میں عوام اس واقعہ پر ناراض ہیں اور حکومت کے خلاف برہمی کی لہر پیدا ہوگئی ہے ۔
بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے تو وہ دوہرے معیارات اختیار کرنے میں مہارت رکھتی ہے ۔ مغربی بنگال کے آر جی کر ہاسپٹل میں بھی ایک ٹرینی ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ بی جے پی نے اس سارے واقعہ کو قومی سطح پر پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ گودی میڈیا کے تلوے چاٹنے والے اینکرس بھی اس معاملے میں پیش پیش رہے تھے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی کی اقتدار میں شراکت والی بہار میں پیش آئے واقعہ کو بھی گودی میڈیا میں اتنی ہی تشہیر ملے گی ۔ کیا نتیش کمار حکومت پر بھی تنقیدیں کی جائیں گی ۔ جس طرح مغربی بنگال میں بی جے پی نے ہنگامہ اور احتجاج کرتے ہوئے چیف منسٹر ممتابنرجی سے استعفی کا مطالبہ کیا تھا کیا اسی طرح بی جے پی بہار میں نتیش کمار سے استعفی طلب کریگی ۔ کیا بی جے پی بہار میں نتیش کمار حکومت سے اپنی تائید واپس لے گی ؟ ۔ جس طرح آر جی کر ہاسپٹل کے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی اسی طرح بہار کے دوخانہ کے ذمہ داروں کے خلاف بھی کار روائی کی جائے گی جنہوں نے زخمی اور تشویشناک حالت کا شکار بچی کو دواخانہ میں شریک کرنے پانچ گھنٹے کا وقت لگادیا تھا ۔ یہ یسے سوالات ہیں جن کا نتیش کمار اور بی جے پی کو جواب دینا ہوگا اور اس طرح کے معاملات پر گودی میڈیا کا بھی امتحان ہے ۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا گودی میڈیا اس معاملے پر مباحث کرواتا بھی ہے یا نہیں۔ کیا نتیش کمار سے سوال کیا جائیگا یا سیاسی آقاوں کے اشارے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی جائے گی ۔
لڑکیوں اور خواتین کی عصمت ریزی اور ان پر مظالم انتہائی شرمناک واقعات ہیں۔ یہ ملک کی چاہے جس ریاست میں پیش آئیں انتہائی شرمناک ہیں۔ اس طرح کے واقعات پر ہمیشہ سے ملک میں سیاست کی جاتی رہی ہے ۔ اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے شرمناک واقعات سارے ملک پر دھبہ ہیں اور انہیں اسی نوعیت سے دیکھا جانا چاہئے ۔ ہر واقعہ پر الگ الگ رائے رکھنا سیاسی ڈوغلا پن ہے اور اس سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ بہار میں جو واقعہ پیش آیا ہے وہ انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے ۔ اس کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی ضرورت ہے اور متاثرہ لڑکی کے خاندان سے انصاف کیا جانا چاہئے ۔