بہار ‘ نئی سیاسی صف بندیوں کے اشارے ؟

   

تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
ملک کی ایک اہم ہندی بولنے والی ریاست بہار میں اسمبلی انتخابات کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جا رہا ہے سیاسی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے اور سیاسی قائدین کی بیان بازیوںمیں شدت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ بہار میں اسمبلی انتخابات سے قبل اور پھر بعد میں بھی از سر نو سیاسی صف بندیاں ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ سیاسی صف بندیوں سے زیادہ سیاسی قائدین کے بیانات کا مقصد انتخابی مفاہمت میں زیادہ بہتر حصہ حاصل کرنے کی کوشش ہے ۔ جہاں آر جے ڈی ‘ کانگریس ‘ کمیونسٹ جماعتوں اور دوسری مقامات پارٹیوں پر مشتمل مہا گٹھ بندھن کی جانب سے انتخابی تیاریوں میں تیزی پیدا کردی گئی ہے وہیں اپنی صفوں کو مستحکم کرنے اور متحد رکھنے کے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح بی جے پی ۔ نتیش کمار اور چراغ پاسوان و دوسری مقامی جماعتوں پر مشتمل این ڈی اے اتحاد کی تیاریاںبھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ انتخابات میں چراغ پاسوان کا رول ابھی کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے ۔ چراغ پاسوان حالانکہ مودی حکومت میں مرکزی وزیر ہیں اور این ڈی اے کا حصہ ہیں لیکن حالیہ عرصہ میں انہوں نے جو بیانات دئے ہیں ان کی وجہ سے سیاسی مباحث کا راستہ کھل گیا ہے ۔ کئی طرح کے تبصرے کئے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ چراغ پاسوان نے دباؤ کی حکمت عملی پر عمل کرنا شروع کردیا ہے ۔ وہ بہار میں بی جے پی کے ساتھ ایسا کچھ سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجہ میں انہیں چیف منسٹر نتیش کمار سے زیادہ حصہ داری حاصل ہوجائے ۔ وہ نتیش کمار سے سرد جنگ رکھتے ہیں اور گذشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی انہوں نے بی جے پی سے اتحاد رکھنے کے باوجود نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹیڈ کے خلاف اپنے امیدوار نامزد کئے تھے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ چراغ پاسوان کے امیدواروں کی وجہ سے ہی جے ڈی یو کو کم تعداد میں نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ چراغ پاسوان اس بار بھی اسی طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایک انٹرویو میں انہوں نے بہار کی تمام نشستوں پر مقابلے کے اشارے بھی دئے ہیں۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو بی جے پی کیلئے جہاں چراغ پاسوان کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنا ضروری ہے وہیں نتیش کمار کی اہمیت سے بھی بی جے پی انکار نہیں کرسکتی کیونکہ مرکز میں مودی حکومت کے استحکام کا دار و مدار نتیش کمار کی تائید پر بھی ہے ۔ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کی تائید سے ہی مرکز میں این ڈی اے حکومت قائم ہوسکی ہے اور نریندر مودی تیسری مرتبہ وزارت عظمی پر فائز ہوئے ہیں۔ بی جے پی چراغ پاسوان پر دباؤ بنانے سے گریزاں ہے کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ چراغ پاسوان کی اسمبلی انتخابات میں بھی اہمیت ہے اور این ڈی اے اتحاد کو اقتدار حاصل کرنا ہے تو چراغ پاسوان کا ساتھ نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ نتیش کمار اس معاملے میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے بی جے پی پر زیادہ انحصار کئے ہوئے ہیں۔ اسی صورتحال کا چراغ پاسوان فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور وہ لگاتار ایسے بیانات دے رہے ہیں جو کبھی بی جے پی کے خلاف جاتے ہیں تو کبھی نتیش کمار کی بے چینی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی نے بھی انتخابات میں حصہ لینے کا اشارہ دیدیا ہے اور اس نے بھی تمام نشستوںپر مقابلہ کا اعلان کیا ہے ۔ اس صورتحال میں یہ کہا جا رہا ہے کہ بہار میں اسمبلی انتخابات سے قبل از سر نو سیاسی صف بندیاں ہوسکتی ہیں۔ تاہم ایسا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہی ہوگا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں کبھی بھی اور کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ کبھی بھی سیاسی وابستگیاں بدل سکتی ہیں۔
چراغ پاسوان نے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ ان کے والد آنجہانی رام ولاس پاسوان نے ایک موقع پر کہا تھا کہ وہ بی جے پی کے ساتھ جانے کی بجائے خود زہر کھانے کو ترجیح دیں گے ۔ یہ بھی ایک طرح کی دباؤ کی حکمت عملی ہے اور وہ بی جے پی پر اپنے عزائم کو آشکار کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ وہ وقفہ وقفہ سے ہندو ۔ مسلم تنازعات کی بھی مذمت کرتے رہے ہیں اور سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بہار میں اسمبلی انتخابات سے قبل کچھ تبدیلیاں ہوسکتی ہیں تاہم یہ تبدیلیاں کس نوعیت کی ہونگی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا ۔