جو غمِ بے اثر نہ ہو جو شبِ بے سحر نہ ہو
وہ غمِ انتظار کب، وہ شبِ انتظار کیا
بہار اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا ہے ۔ نتائج کا اعلان بھی ہوگیا ہے ۔ این ڈی اے کو اس کی اپنی توقعات سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے اور مہا گٹھ بندھن کا مظاہرہ اس کے کٹر مخالفین کی توقع سے بھی زیدہ ابتر اور ناقص رہا ہے ۔ این ڈی اے اتحاد کو 200 سے زائد نشستیں حاصل ہوئی ہیں جبکہ مہا گٹھ بندھن محض 35 پر سمٹ کر رہ گیا ہے ۔ یہ نتائج نہ صرف سیاسی جماعتوں کیلئے بلکہ ہر شعبہ حیت سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے توقع کے بالکل برعکس رہے ہیں۔ ایسا ماضی میں بھی ہوا ہے جب نتائج عمومی توقع کے برخلاف آئے ہیں تاہم بہار کے نتائج کا جہاں تک تعلق ہے ان کے تعلق سے کئی سوال پیدا ہونے لگے ہیں اور ان تمام سوالات کا مکمل غیرجانبداری کے ساتھ انتہائی ذمہ دارانہ تجزیہ کرنا لازمی ہوگیا ہے ۔ بی جے پی اور جے ڈی یو کو جو کامیابی ملی ہے اگر ن کے مشترکہ ووٹوںکی بات کی جائے توان دونوں سے زائد ووٹ تیجسوی یادو کی راشٹریہ جنتادل کو حاصل ہوئے ہیں۔ یہ خود الیکشن کمیشن کے ڈاٹا سے پتہ چل رہا ہے ۔ اس کے علاوہ ایسا نہیں ہے کہ محض سوشیل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ اداروں کی جانب سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے ۔ کانگریس کی شعلہ بیان ترجمان سپریہ شریناتھ نے بھی یہ دعوی کیا ہے کہ آر جے ڈی کو ریاست بھر میں جملہ ایک کروڑ 80 لاکھ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ووٹوں کی یہ تعداد بی جے پی اور جے ڈی یو دونوں کے مشترکہ ووٹوں کی تعداد کے برابر ہے ۔ اس کے باوجود اگر آر جے ڈی کو محض گنتی کی چند نشستیں ملتی ہیں اور جے ڈی یو اور بی جے پی مشترکہ طور پر 180 کے قریب نشستیں حاصل کرتی ہیں تو اس پر سوال پیدا ہونا لازمی اور فطری ہے ۔ سوشیل میڈیا پر کچھ دوسرے گوشوں کی جانب سے بھی اس طرح کے سوال اٹھائے جا رہے ہیں تاہم کانگریس پارٹی کی سرکاری ترجمان نے یہ اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ ان کا دعوی کانگریس پارٹی کے تعلق سے نہیں بلکہ آر جے ڈی کے تعلق سے ہے ۔ایسے دعوی کا تفصیلی طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس پر جو سوال پیدا ہونے لگے ہیں ان کے جواب بھی دئے جانے چاہئیں۔ محض الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ہر فیصلے کو درست قراردینا جمہوری عمل کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا اور اس سے جمہوریت کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے ۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار انتخابات کے سارے عمل کے دوران جو طرز عمل اختیار کیا گیا تھا وہ انتہائی مشکوک اور جانبدارانہ رہا ہے ۔ اپوزیشن کے یہ الزامات بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ الیکشن کمیشن نے بی جے پی کی حلیف جماعت کی طرح کام کیا ہے ۔ بہار میں خواتین کے اکاؤنٹ میں 10 ہزار روپئے کی منتقلی کا عمل اس وقت بھی جاری رہا جب انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا گیا تھا اور انتخابی مہم بھی شروع ہوگئی تھی ۔ یہی الیکشن کمیشن تھا جس نے ٹاملناڈو میں لوک سبھا انتخابات کے دوران پہلے سے معلنہ اور پہلے سے نافذ العمل اسکیم کو بھی روک دیا تھا اور پابندی عائد کردی تھی ۔ الیکشن کمیشن کو اس بات کا جواب دینا ہی چاہئے کہ بہار میں استثنی کیوں دیا گیا اور خواتین کے اکاؤنٹ میں رقومات کی منتقلی کا سلسلہ کس بنیاد پر جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ۔ جمہوری عمل سارے ملک کیلئے ایک ہے ۔ انتخابی قوانین سارے ملک کیلئے ایک ہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے بہار میں آنکھیں کیوں موند لیں اور کیوں عمدا خاموشی برتی گئی ۔ چیف الیکشن کمشنر اس پر جوابدہ ہیں اور وہ محض انہیں بے بنیاد الزامات قرار دیتے ہوئے نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے ۔ا س کے علاوہ اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ انتخابی عمل کی نگرانی اور اہم ذمہ داریوں کیلئے بیرون ریاست سے بی جے پی اقتدار والی ریاستوں اور خاص طور پر گجرات سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں کو ہی کیوں متعین کیا گیا تھا ۔ یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ان عہدیداروں کا انتخاب بھی مرکزی وزیرداخلہ نے کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے پوری فرمانبرداری سے ان کو ذمہ داریاں بھی سونپ دی تھیں۔
یہ وہ مسائل اور امور ہیں جو نتائج کے ایک دن بعد ہی موضوع بحث بن گئے ہیں۔ مزید کئی سوال ہیں جو عوامی حلقوں اور سوشیل میڈیا میں گشت کر رہے ہیں۔ خود سیاسی جماعتیں بھی اپنے طور پر سارے انتخابی عمل کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں ۔ کئی ادارے بھی اس تعلق سے سرگرم ہوگئے ہیں۔ ان کی جانب سے بھی کئی سوال پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام سوالات کے جواب دے ۔ عوام کے اعتماد کو مجروح ہونے سے بچانے اور ملک کے جمہوری اور انتخابی نظام کو داغدار ہونے اور اس کی ساکھ متاثر ہونے سے بچانے کیلئے جواب دینا ضروری ہے ۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کس پارٹی کو کامیابی اور کس کو ناکامی ملی ۔ اصل مسئلہ ملک کی جمہوریت اور انتخابی عمل پر اٹھنے والے سوالات کا ہے اور یہی سب سے زیادہ اہم مسئلہ ہے اور اس کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے ۔
بنگال ‘آسان نشانہ نہیں
بہار میں توقع سے زیادہ کامیابی کے بعد بی جے پی نے یہ اعلان کردیا ہے کہ بہار میں اپوزیشن کو کراری شکست دینے کے اب اس کا اگلا نشانہ مغربی بنگال ہے ۔ بی جے پی نے یہ دعوے شروع کردئے ہیں کہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں بنگال میں ترنمول کانگریس کے اقتدار کو بھی شکست دی جائے گی اور بی جے پی اقتدار پر فائز ہوگی ۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے تو یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں کہ وہاں کس طرح سے انتخابی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں اور کس طرح سے الیکشن کمیشن کی مدد سے اپوزیشن کو ہرایا گیا تاہم جہاں تک مغربی بنگال کا سوال ہے تو یہ بی جے پی کیلئے آسان نشانہ نہیں ہوسکتا ۔ بہار اور بنگال میں سب سے اہم اور بنیادی فرق یہی ہے کہ بنگال میں ممتابنرجی اقتدار پر ہیں ۔ ریاست کی لگاتار تیسری معیاد کی چیف منسٹر ہیں۔ انتظامیہ اور عوام پر گرفت رکھتی ہیں۔ بہار میں تیجسوی یادو چیف منسٹر نہیں تھے ۔ نتیش کمار چیف منسٹر ہیں ۔ چیف منسٹر رہتے ہوئے سرکاری مشنری کے استعمال اور عہدیداروں کے استعمال کی جو سہولت بہار میں دستیاب تھی وہ بنگال میں دستیاب نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ممتابنرجی ایک شعلہ بیان اور جارحانہ تیور والی لیڈر ہیں۔ ان کے خلاف بی جے پی نے گذشتہ اسمبلی انتخابات میںساری طاقت جھونک دی تھی اس کے باوجود وہ کامیاب نہیں رہی ۔ اسمبلی انتخابات بھی بی جے پی کیلئے آسان ہرگز نہیں ہوسکتے ۔