بہار ‘ نقلی شراب ‘ذمہ دار کون ؟

   

شمالی ریاست بہار میںایک بار پھر سے نقلی یا ملاوٹی شراب پینے کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں دو درجن سے زیادہ افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ اس ریاست میںپیش آیا ہے جہاںشراب بندی نافذ ہے ۔ اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ ریاست میںکھلے عام شراب کی فروخت جاری رہتی ہے اور لوگ اس کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ نقلی یا ملاوٹی شراب بھی عوام کو دستیاب ہو رہی ہے اور اس کا استعمال کرتے ہوئے لوگ اپنی جان گنوا بیٹھ رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کے اس انتہائی ترقی یافتہ یا ٹکنالوجی والے دور میں بھی بہار کی حکومت نقلی یا ملاوٹی شراب کی فروخت کو روکنے میں ناکام رہی ہے ۔ آج انتہائی تیز رفتار ترقی کے دور میں بھی اگر لوگ نقلی یا ملاوٹی شراب پیتے ہوئے جان گنوا رہے ہیں تو یہ انتہائی افسوس کی بلکہ شرم کی بات ہے ۔ بہار میں چیف منسٹر نتیش کمار پندرہ سال سے زیادہ عرصہ سے چیف منسٹر ہیں۔ ریاست میں شراب بندی نافذ ہے ۔ اس کے باوجود اگرا س طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو اس کی ذمہ داری راست چیف منسٹر کو قبول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شراب کا جہاں تک سوال ہے یہ سماج کیلئے ایک لعنت سے کم نہیں ہے ۔ حکومتوں کو شراب کی فروخت کو ایک کنٹرول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حکومتیں اس سے ہونے والی آمدنی کی وجہ سے کوئی بھی قطعی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ خاص طور پر نقلی اور ملاوٹی شراب کی فروخت اور اس کا استعمال شرم کی بات ہے اور ایسے واقعات کی روک تھا م کی ذمہ داری حکومت کی اور متعلقہ عہدیداروں کی ذمہ داری ہے ۔ دو درجن سے زائد افراد اس کے استعمال کے نتیجہ میں جان گنوا بیٹھے ہیں اور حکومت کو اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف کسی واقعہ کے رونماء ہوجانے کے بعد افسوس کا اظہار کردینے یا کچھ دکھاوے کی کارروائی کرنے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔ اس طرح کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ اور موثر انداز میں اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ خاص طور پر بہار میں ایسے اقدامات کی ضرورت ہے ۔
بہار کو آج کے اس انتہائی ترقی یافتہ دور میں بھی پسماندہ ریاستوں میں ہی شمار کیا جاتا ہے ۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے پندرہ سال کا عرصہ مکمل کرنے والے نتیش کمار کو اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ایک معیاد میں بھی کوئی چیف منسٹر اگر حقیقی جذبہ کے ساتھ کام کرے تو صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے جبکہ نتیش کمار کو چیف منسٹر کی ذمہ داری سنبھالے پندرہ سال ہو رہے ہیں۔ ایسے میںریاست کی پسماندگی اور ملاوٹی شراب جیسے واقعات کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے ۔ ریاست میںنشہ بندی نافذ ہے اور اس پر عمل آوری کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس کارروائیاں کی جانی چاہئیں۔ جو عہدیدار یا محکمہ جات نشہ بندی نافذ کرنے کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ نشہ بندی نافذ ہونے کے بعد عام شراب کی فروخت ہی جرم ہے تو نقلی یا ملاوٹی شراب کی تیاری اور فروخت تک عہدیدار کس طرح سے خاموش رہے ہیں اس کا جواب طلب کیا جانا چاہئے ۔ دو درجن افراد کی زندگیوں کا اتلاف کوئی معمولی واقعہ نہیں کہا جاسکتا ۔ بہار میں جنتادل یونائیٹیڈ ‘ بی جے پی اور اس کی تمام حلیف جماعتوں کوا س صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ ایک ایسا منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے جس کے نتیجہ میں اس لعنت سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارہ مل سکے اور نقلی یا ملاوٹی شراب کی تیاری اور اس کے استعمال کی لعنت کو ختم کرنے میں مدد مل سکے ۔
حکومتوں کی جانب سے اقدامات تو ضرور کئے جاتے ہیں لیکن نچلی سطح تک آتے آتے سرکاری عملہ مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہوجاتا ہے یا پھر مجرمانہ ساز باز کی جاتی ہے ۔ دونوں ہی صورتیں انسانی جانوں کیلئے خطرناک ہوتی ہیں اور بہار میں ایسا ہوچکا ہے ۔ ریاستی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سارے معاملے کو معمول کا واقعہ سمجھنے کی بجائے سنجیدگی سے لے ۔ اس کی تفصیلی اور غیر جانبدار جانچ کروائی جائے ۔ جو کوئی اس میںملوث ہیں انہیںسخت ترین سزائیں دلائی جائیں۔ جن سرکاری عہدیداروں نے تغافل برتا ہے ان کے خلاف بھی تحقیقات ہوں اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے کیونکہ انسانی جانوں کے اتلاف پر خاموشی اختیار کرنا ایک طرح سے اس طرح کے جرم میں حصہ دار ہونے کے مترادف ہوگا ۔