یہ سمجھ لو کہ کوئی امتحاں آئے گا ضرور
لوگ جب اپنے فرائض کو بھلانے لگ جائیں
بہار میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کے عمل کے تعلق سے اپوزیشن کے اندیشوں کے دوران سپریم کورٹ نے آج واضح تیقن دیا ہے کہ اگر یہ واضح ہوجائے کہ یہ کام غیر قانونی طریقہ سے کیا گیا ہے تو اسے ماہ ستمبر تک بھی کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے ۔ سپریم کورٹ میں آج اس مسئلہ پر سماعت ہوئی ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عدالت میں موثر پیروی کی گئی ہے ۔ معزز عدالت نے دلائل کی سماعت کرنے کے بعد یہ واضح کردیا کہ قانون کے خلاف کوئی کارروائی قبول نہیں کی جائے گی ۔ عدالت کا یہ تبصرہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اپوزیشن کیلئے طمانیت کا باعث بھی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسلسل الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے عوام کی شہریت کے تعلق سے سوال کر رہا ہے اور ان سے دستاویزات طلب کئے جا رہے ہیں جبکہ کمیشن کا ذمہ یہی ہے کہ وہ صرف ووٹر کی شناخت کا تعین کرے ۔ شہریت کا مسئلہ االیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتا ۔ یہ طئے کرنا مرکزی حکومت اور خاص طور پر وزارت داخلہ کا ذمہ ہے ۔ عدالت نے اس بات کو قبول کیا کہ شہریت کا تعین کرنا مرکزی حکومت کا ذمہ ہے تاہم یہ یقینی بنانا کہ کوئی غیرہندوستانی ووٹر لسٹ میں جگہ حاصل نہ کر پائے یہ طئے کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے ۔ اس موقع پر سینئر وکیل ابھیشیک مانو سنگھوی نے کہا کہ یقینی طور پر یہ طئے کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن جو لوگ پہلے ہی سے ووٹر لسٹ میں موجود ہیں ان کے تعلق سے کمیشن کس طرح سے فیصلہ کرسکتا ہے ؟ ۔ جس طرح سے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اعتراضات کئے جا رہے ہیں اور جس طرح سے الیکشن کمیشن نے لگاتار اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھایا ہے اور کسی کی تجاویز یا شکایات کو خاطر میں نہیں لایا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یقینی طور پر عوام کے ذہنوں میں اندیشے پیدا ہونے لگے تھے ۔ یہ اندیشے صرف بہار کے عوام تک بھی محدود نہیں تھے بلکہ یہ اندیشے سارے ملک میں پیدا ہونے لگے تھے کیونکہ الیکشن کمیشن نے سارے ملک میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظرثانی کرنے کے ارادوں کا بھی اظہار کردیا ہے ۔ اس وجہ سے عوام میں تشویش تھی ۔
اب جبکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر یہ کام غیر اقنونی طور پر کیا گیا ہے تو اس کو ماہ ستمبر تک بھی کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے تو ایک اطمینان کی لہر پیدا ہوئی ہے ۔ یہ طمانیت پیدا ہوئی ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کوئی کام غیر قانونی طور پر یا غیرمجاز طور پر کرتا ہے تو عدالت اسے کالعدم کر دے گی ۔ الیکشن کمیشن جو کچھ بھی اقدامات کر رہا ہے اس کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور کمیشن کو پھر سپریم کورٹ میں اپنے اقدامات کی قانونی نوعیت اور اس کا جواز پیش کرنا ہوگا ۔ کمیشن جس طرح اپوزیشن جماعتوں کی شکایات کو نظر انداز کر رہا ہے یا انہیں خاطر میں لانے تیار نہیں ہے اور کوئی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا تو اس کا یہ طرز عمل عدالت میں قابل قبول نہیں ہوگا ۔ عدالت تو ساری تفصیل ‘ سارا ڈیٹا اور قانونی جواز کمیشن سے طلب کرے گی ۔ کمیشن عدالت کو جواب دینے اور عدالتی احکام کی تعمیل کرنے کا پابند ہوگا ۔ اس صورتحال میں ملک کے عوام کیلئے ایک اچھی اطلاع ضرور کہی جاسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کیلئے بھی ایک ڈھارس کی بات ہے کہ وہ کمیشن کے خلاف عدالت سے رجوع ہوسکتے ہیں اور جو شکایات کمیشن خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ان کی تفصیل عدالت کے علم میں لائی جاسکتی ہے اور عدالت کے ذریعہ کمیشن سے جواب طلب کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح اب الیکشن کمیشن کے اقدامات کے تعلق سے جو اندیشے پیدا ہوگئے تھے اور جو تشویش لاحق ہوگئی تھی وہ صورتحال فی الحال دور ہوتی نظر آنے لگی ہے ۔
جہاں تک الیکشن کمیشن کاسوال ہے تو اسے اپنی دستوری اور قانونی ذمہ داریوں اور اپنے حدود کا تعین کرلینا چاہئے ۔ حکومت یا پھر کسی اور کے دباؤ میں کام کرنے کی بجائے دستوری اور قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کمیشن کی جو ساکھ حالیہ عرصہ میں متاثر ہوئی ہے اسے بہتر بنایا جاسکے اور ملک میں جمہوری اور انتخابی نظام پر پیدا ہونے والے شبہات کو در کیا جاسکے ۔ کمیشن کو اپنے اقدامات کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اسے یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ اپوزیشن کو نظر انداز کرنے کا طریقہ عدالتوں میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتا ۔ کمیشن کی متاثر ہوتی شبیہ کو خود کمیشن ہی اپنے اقدامات سے بہتر بناسکتا ہے ۔