ملک کی ہندی ریاست بہار ان دنوں سب سے زیادہ سرخیوں میں ہے ۔ بہار میں آئندہ دو ماہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں اس پر تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ فطری بات ہے ۔ تاہم اس بار کے انتخابات بہت زیادہ دلچسپ ہونے کی توقع کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب تک دو اتحادوں میں جہاں مقابلہ ہوا کرتا تھا اب وہیں ہمہ رخی مقابلے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں الجھن کا شکار ہیں اور وہ حقیقی معنوں میں عوام کی نبض کو سمجھنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ بہار میں این ڈی اے اتحاد اپنی حکومت کو بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہے اور بی جے پی و جے ڈی یو کے قائدین لگاتار عوام کو رجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جہاں وزیر اعظ مودی کی جانب سے حسب معمول ہزاروں کروڑ روپے کے پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا ہے وہیں چیف منسٹر بہار نتیش کمار کی جانب سے عین انتخابات سے قبل عوام سے کئی وعدے کئے جا رہے ہیں۔ کئی اسکیمات کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ جہاں تک مودی کے وعدوں کا سوال ہے تو ہر انتخاب سے قبل وہ بے شمار پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھتے ہیں اور پھر ان پر کوئی پیشرفت نہیں ہوپاتی ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ جہاں تک نتیش کمار کی جانب سے کئے جانے والے وعدوں کا سوال ہے تو عوام کا احساس ہے کہ یہ صرف عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے کیونکہ بہار میں دو دہوں سے نتیش کمار چیف منسٹر ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک ریاست کی ترقی کو یقینی نہیں بنایا ہے اور نہ ہی بہار کے نوجوانوں کیلئے مستقبل کو تابناک بنانے کوئی اقدامات کئے گئے ہیں۔ اپوزیشن مہا گٹھ بندھن کی جانب سے اس بار اقتدار چھیننے کی جدوجہد تیز کردی گئی ہے ۔ جہاں آر جے ڈی کی جانب سے جارحانہ مہم شروع کردی گئی ہے وہیں کانگریس بھی ریاست میں اپنی سیاسی طاقت کو منوانے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ راہول گاندھی کی ووٹر ادھیکار یاترا اسی جانب ایک کوشش تھی ۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے بھی بہار ادھیکار یاترا منظم کرتے ہوئے اپنے ووٹرس پر گرفت بنائے رکھنے کی کوشش کی ہے اور سیاسی بساط پر چالیں بڑھتی جا رہی ہیں ۔
بہار کی سیاست علاقائی اعتبار سے سب سے الگ اور منفرد دکھائی دیتی ہے ۔ بہار کے عوام کی سیاسی سمجھ بوجھ بھی اہمیت کی حامل ہے اور خاص طور پر ذات پات کو بہار میں اہمیت دی جاتی ہے ۔ اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں اس ذات پات کے توازن کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں تو آر جے ڈی کی جانب سے نوجوانوں کو روزگار ‘ خواتین کی بھلائی اور دوسرے ترقیاتی اقدامات کا نعرہ دیتے ہوئے اس ذات پات کے حصار کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ پرشانت کشور کی جن سوراج بھی اس بار اپنی قسمت آزمائی کر رہی ہے اور وہ بھی ترقیاتی اور تعلیمی و روزگار کے نعرے دے رہی ہے ۔ ایسے میں ذات پات کی سیاست کی جو بساط ہے وہ کس حد تک کمزور ہوتی ہے اور لوگ کس حد تک ترقیاتی نعروں کو پسند کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں یہ ابھی سے قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ بہار کی سیاست گنجلک اور پیچیدہ ہوتی ہے اور اسی لئے قبل از وقت وقت عوام کے موڈ کو سمجھنے میں سیاسی جماعتوں کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ روزگار اور ترقی کا نعرہ نوجوانوں میں مقبول ہونے لگا ہے ۔ نوجوان چاہتے ہیں کہ ذات پات کی سیاست سے بالاتر ہوتے ہوئے ان کی ترقی اور ان کے بہتر مستقبل کی بات کی جائے ۔ فرقہ پرستی اور نزاعی مسائل کو پس پشت ڈالنے کیلئے آر جے ڈی اور کانگریس کی جانب سے جو مہم شروع کی گئی ہے ابتداء میں وہ نوجوانوں میں پسند کی جا رہی ہے اور نوجوان اس سے متفق ہونے لگے ہیں۔
جیسے جیسے اسمبلی انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے ریاست کی سیاست میں سرگرمی بڑھتی جا رہی ہے ۔ کئی جماعتیں اپنے اپنے منصوبوں کے ساتھ عوام سے رجوع ہونے لگی ہیں۔ کوئی خود کامیابی حاصل کرنے سرگرم ہے تو کوئی کسی کو شکست سے دوچار کرنے کے منصوبہ پر عمل پیر ا ہے ۔ موجودہ صورتحال میں جہاں این ڈی اے اتحاد کو کئی طرح کے اندیشے لاحق ہیں وہیں مہا گٹھ بندھن کے حوصلے بلند دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر اتحاد اور ہر انفرادی جماعت اپنے طور پر بہار کے عوام کو رجھانے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ اس بار انتخابات میں نوجوان فیصلہ کن موقف اختیار کرسکتے ہیں اور وہ روایتی سیاست سے منحرف ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔