بہار کی سیاست میں ایک بار پھر نئی تبدیلی کی آہٹ

   

محمد جسیم الدین نظامی
کہتے ہیںکہ، سیاست شرابی کا وہ نشہ ہے جو صبح ہوتے ہی اُتر جاتاہے اوردن ڈھلتے ہی نئی طلب میں تروتاز ہوجاتاہے…اسکی دشمنی بھی ناپائدار اوراسکی دوستی بھی لااعتبار…. بہارکی موجودہ صورتحال اسی منظرنامے کی ایک تمثیل ہے… برسوںاین ڈی اے کا حصہ رہے ، اُپیندر کشواہا کے یوپی اے کا حصہ بننے کے ساتھ ہی بہارمیں’’ ذات پات پرمبنی محاذ‘‘ کا نیا ورژن تیار ہونے کی امید مزید بڑ ھ گئی ہے …دراصل ملک کی سیاست میں اترپردیش اور بہار جیسی ریاستوں کا اہم رول ہوتا ہے، دونوں ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں شامل ہے… یوپی میں بی جے پی کا اقتدار ہے اور بہار میں وہ جنتادل (یو) کی حکومت میں شریک ہے… 2014 کے اسمبلی انتخابات میں لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتادل، نتیش کمار کی جنتادل (یو) اور دوسری پارٹیوں نے ایک عظیم اتحاد تشکیل دیتے ہوئے بی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا …لیکن مخلوط حکومت قائم ہونے کے کچھ عرصہ بعد نتیش کمار نے لالو پرساد یادوکی جماعت سے اپنا ناطہ توڑ کر بی جے پی سے تعلق قائم کرلیا… اس طرح نتیش کمار کی پارٹی قومی جمہوری محاذ یا این ڈی اے کا ایک حصہ بن گئی، جبکہ عہدہ وزارت عظمی کیلئے نریندر مودی کی نامزدگی کی سب سے زیادہ مخالفت نتیش کمار نے کی تھی… اب این ڈی اے میں شامل آر ایل ایس پی کے سربراہ اوپیندر کشواہا نے بھی مودی کی بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے اور انہوں نے باضابطہ سونیا گاندھی و کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے میں شمولیت اختیار کرلی ہے… کشواہا کی یو پی اے اتحاد میں شمولیت سے عظیم تر اتحاد کو بہار میں بی جے پی، جنتادل (یو) اور رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی کے خلاف ایک نئی توانائی حاصل ہوگی… نئی دہلی میں کشواہا نے سینئر کانگریس لیڈر احمد پٹیل، آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو، لوک تانترک جنتادل کے سربراہ شرد یادو اور ریاست بہار کے سینئر سیاستدانوں کی موجودگی میں یو پی اے میں شمولیت اختیار کی اور اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ جس طرح راہول گاندھی اور لالو یادو نے کھلے پن کا اظہار کیا ہے اس سے متاثر ہوکر وہ اپوزیشن اتحاد میں شامل ہو رہے ہیں لیکن اس سے بھی بڑی وجہ بہار کی عوام ہیں جن کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ یو پی اے میں شمولیت اختیار کررہے ہیں….دوسری طرف اب کشواہا کو سیاسی اعتبار سے کمزور کرنے کیلئے نتیش کمارنے ان کی پارٹی میں نقب زنی شروع کردی گئی ہے۔ تین ارکان پارلیمنٹ جن میں خود کشواہا بھی ہیں، میں سے ایک نے ان کے خلاف بغاوت کردی ہے، وہیں دوسری طرف اسمبلی میں بھی پارٹی کے دونوں رکن اسمبلی نے بھی کشواہا کے فیصلے کے برعکس این ڈی اے میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نتیش کمار کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انتخابات کے موقع پر اگر پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ ساتھ چھوڑنا شروع کردیں تو تول مول کی طاقت کمزور پڑجاتی ہے…تاہم بہار کی سیاست کو باریکی سے سمجھنے والے جانتے ہیں کہپارٹی ارکان کی بغاوت سے بھلے ہی کشواہا کی تول مول کی طاقت کم ہوگئی ہو لیکن ووٹ بینک انہی کے نام اور چہرے سے مربوط ہے …کشواہا انتہائی پسماندہ طبقات کے جس ذات کی نمائندگی کرتے ہیں وہ اب بھی ان کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے…اپیندر کشواہا کاسیاسی قد انتخابی ریاضی کے لحاظ سے بہار میں اس وجہ سے بھی اہم ہو جاتا ہے کہ بہار میں کشواہا طبقے کی آبادی 7 سے 8 فیصد ہے اور یہ بہار میں پسماندے طبقے کی کمیونٹی میں یادو کے بعد دوسری سب سے بڑی طاقت ہے…خاص طور پر حاجی پور، سمستی پور اور ویشالی جیسے علاقوںمیں کشواہا کمیونٹی کی اچھی خاصی تعداد آبادہے ،جہاں رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی کی مشکلیں کافی بڑھ جائگی… پچھلے انتخاباتم میں آر ایل ایس پی نے تین پارلیمانی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ان میں سے ایک تو خود کشواہا ہے جبکہ جہان آباد کے رکن پارلیمنٹ ارون کمار گزشتہ دو برسوں سے اپنی الگ راہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح سیتا مڑھی حلقہ کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والے رام کمار شرما نے پہلے نتیش کمار کے موافق خیالات ظاہر کئے لیکن بعد میں کشواہا کے ساتھ ہوگئے، کشواہا کو آر ایل ایس پی سربراہ کی اس پریس میٹ میں بھی دیکھا گیا جو دہلی میں بلائی گئی تھی اور جہاں انہوں نے مرکزی کابینہ اور این ڈی اے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا..بہرحال سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے نشان پر تین رکن پارلیمنٹ کو کامیاب کروانے میں کامیاب رہے کشواہا یوپی اے کیلئے ایک نعمت ثابت ہوسکتے ہیں…ظاہرہے ،اب آرجے ڈی اور کانگریس انہیں انتہائی پسماندہ ذات کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے استعمال کرے گی…. بڑا فائدہ دیکھتے ہوئے اپیندر کشواہا کو ان کے مطالبے کے مطابق سیٹیں دینے میں بھی آر جے ڈی اور کانگریس زیاد ہ تذبذب کا شکار نہیںہوگی …..بات صرف یہ نہیں ہے کہ اپیندر کشواہا کو بی جے پی اب اتنے سیٹیں دینے کو تیار نہیں ہوئی جتنا کہ وہ مطالبہ کررہے تھے ،اسی لئے وہ این ڈی اے چھوڑکر یو پی اے کا حصہ بن گئے… بات یہ بھی ہے کہ بہار کی سیاست میں کشواہا

اور نتیش دو ایسے مخالف چہرے ہیں جو کبھی ایک پالے میں ہمیشہ رہ ہی نہیں سکتے… نتیش کمار جب این ڈی اے سے الگ ہوئے تھے تبھی کشواہا کے لئے این ڈی اے میں جگہ بنی تھی، جب نتیش کمار پھر سے این ڈی اے کا حصہ بنے اس کے بعد کشواہا کے لئے این ڈی اے میں اضطراب کن صورتحال پیدا ہوگئی…اوربی جے پی کے لئے اپیندر کشواہا کے مقابلہ نتیش کو توجہ دینا زیادہ ضروری سمجھا ،یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کشواہا کے آگے جھکنے تیار نہیں ہوئی….واضح رہے کہ سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بہار کے مشہور چہرے لالو یادو اور نتیش کمار کا سامنا کرتے ہوئے بی جے پی نے اگر 40 میں سے 31 سیٹوں پر جیت درج کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی تو اس میں اپیندر کشواہا اور رام ولاس پاسوان کا بڑا حصہ تھا بی جے پی نے ان کے ساتھ اتحاد کرکے ذات پات پر مبنی محاذ آرائی میں بازی مارلی تھی۔ اس محاذ کے سہارے بی جے پی کے حق میں اعلیٰ ذات کے علاوہ پسماندہ دلت بھی مذکورہ محاذکا حصہ بن گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ سال 2015 کے اسمبلی انتخابات میں جب لالو، نتیش اور کانگریس نے محاذ بنایا تو بی جے پی کے لئے اپیندر کشواہا۔ رام ولاس پاسوان کا اتحاد دوبارہ کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ اس محاذ کے ذریعہ وہاں پر یادو، کُرمی اور مسلمان کا نیا محاذ تیار ہوگیا۔ 2019 سے پہلے ایک بار پھر وہاں یہ توازن بدل چکا ہے، نتیش کمار اب ایک بار پھر این ڈی اے کا حصہ بن چکے ہیں.. پاسوان اگرچہ ابھی بھی این ڈی اے کا حصہ ہیں تاہم ابھی بھی بظاہر وہ این ڈی سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں ..حالانکہ مشہور صحافی و نقاد، سرور احمد کے مطابق لوک جن شکتی پارٹی ،این ڈی اے سے الگ نہیں ہوگی کیونکہ پارٹی کے فیصلے اب چراغ پاسوان لیتے ہیں اور وہ یوپی ایے کے ساتھ جانے کے حق میں نہیں ہیں..دوسری بات یہ بھی ہے کہ رام ولاس پاسوان کی پارٹی نسبتا ایک چھوٹی پارٹی ہے اور ان کی سیاست بہار کے کچھ حصے تک محدود ہے تاہم ان کی سیاست کا محور بہار سے کہیں زیادہ مرکز رہا ہے… دوسری طرف سال 2015 میں این ڈی کا حصہ رہ چکے جیتن رام مانجھی اب یو پی اے کے ساتھ آچکے ہیں یہ بھی ریاست میں انتہائی پسماندہ ذات کی خاطر خواہ تعداد موسہر اورچمار کی نمائندگی کے دعویدارہیں … بہرحال آنے والے انتخابات میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ ابھی واضح طورپر نہیں کہا جاسکتا لیکن بہار میں این ڈی اے کے خلاف بنتا ہوا یہ محاذ اپنا اثر تو ضرور دکھائے گا۔