جس کی کرتا ہوں شب و روز پرستش دل سے
اُس بُت ناز کی غیروں سے شناسائی ہے
شمالی ہند کی ریاست بہار میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں یہاں بی جے پی ‘ جے ڈی یو ‘ ایل جے پی اور دوسری جماعتوں پر مشتمل این ڈی اے اتحاد نے اچھی کامیابی حاصل کی تھی ۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے کی اچھی کارکردگی کے بعد آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات تک ریاست میں سیاسی ماحول پرسکون رہے گا اور یہاں کسی طرح کی سیاسی تبدیلی کے آثار دکھائی بھی نہیں دے رہے ہیں۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ در پردہ ریاست میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں اور اس کا اظہار اس وقت ہوا جب راشٹریہ جنتادل کے رہنماء و سابق چیف منسٹر لالو پرساد یادو نے چیف منسٹر نتیش کمار کو پیشکش کی ہے کہ وہ این ڈی اے اتحاد چھوڑ کر دوبارہ انڈیا اتحاد یا ریاستی سطح پر مہا گٹھ بندھن کا حصہ بن جائیں۔ حالانکہ یہ پیشکش قبول ہونے کے کوئی امکانات نہیںہیں کیونکہ نتیش کمار گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ کامیابی کے بعد فی الحال ایسا کوئی تجربہ کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے ۔ اس کے علاوہ انڈیا اتحاد کی ایک ذمہ دار جماعت کی حیثیت سے لالو پرساد یادو کو بھی اس طرح کی پیشکش کرنے سے قبل غور و فکر کرنے کی ضرورت ہوسکتی ہے کیونکہ اس طرح کی پیشکش سے بہار کے عوام میں یہ پیام جاسکتا ہے کہ آر جے ڈی اور اس کی ساتھی جماعتوں کو نتیش کمار کی ضرورت ہے ۔ یہ درست ہے کہ نتیش کمار نے لوک سبھا انتخابات میں اچھی کامیابی حاصل کی ہے لیکن یہ کامیابی بی جے پی کی مرہون منت رہی ہے ۔ اس کے علاوہ چراغ پاسوان اور جیتن رام مانجھی سے اتحاد کا بھی اس میں کافی اثر دکھائی دیا ہے ۔ جہاںتک اسمبلی انتخابات کی بات ہے تو یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ نتیش کمار کی جنتادل یونائیٹیڈ کو عوام کی اتنی تائید ملنے کی امید نہیں ہے جتنی انہیں گذشتہ اسمبلی انتخابات میں حاصل ہوئی تھی ۔ اس طرح ان کی اسمبلی نشستوں کی تعداد میں بھی کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ ایسے میں راشٹریہ جنتادل اور اس کی حلیف جماعتوں کو اپنے موقف کو مستحکم کرنے پر توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہوگی ۔
اس کے علاوہ اسمبلی انتخابات کا وقت آنے تک حالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے خلاف رائے بن سکتی ہے ۔ قومی سطح کے انتخابات میں عوام کی ترجیحات مختلف رہی تھیں اور اسمبلی انتخابات میں عوام کی رائے یقینی طور پر تبدیل ہوسکتی ہے ۔ جس طرح سے بہار میں بہار پبلک سرویس کمیشن امتحانات کا مسئلہ شدت اختیار کرگیا تھا اور طلبا نے جس طرح کا احتجاج کیا تھا وہ ریاست کے عوامی موڈ پر اثر انداز ہوسکتا ہے ۔ اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے جن سوراج کے بانی پرشانت کشور نے بھی سیاسی اقدامات کا آغاز کردیا ہے ۔ انہوں نے طلبا کے مطالبات کی تائید میں بھوک ہڑتال شروع کررکھی ہے حالانکہ طلبا برادری نے ان سے کسی طرح کی مدد کی اپیل نہیں کی تھی ۔ بہار میں بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے اور تقررات کیلئے ہونے والے امتحان میں مبینہ بے قاعدگیوں سے عوامی موڈ پر منفی اثرات ہونے لگے ہیں۔ ایسے مسائل کو عوام تک لیجاتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے پر آر جے ڈی اور دیگر جماعتوں خاص طور پر کانگریس کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ نتیش کمار بھلے ہی ابھی آر جے ڈی کی پیشکش پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں یا اس پر طنز کرنے لگے ہوں لیکن ان کا مزاج گذشتہ چند برسوں میں واضح ہوگیا ہے ۔ وہ ایک سے زائد مرتبہ اتحاد تبدیل کرچکے ہیں۔ انہیں اپنے اقتدار سے چمٹے رہنے میں ہی زیادہ دلچسپی ہے ۔ وہ بتدریج اپنی مقبولیت کھوتے جا رہے ہیں اور اس صورتحال پر رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے اپوزیشن کو مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک جنتادل یونائیٹیڈ کے قائدین اور کارکنوں کا سوال ہے تو یہ تاثر بھی پیدا ہونے لگا ہے کہ بہار میں نتیش کمار کا وہی حال ہوسکتا ہے جو مہاراشٹرا میں ایکناتھ شنڈے کا کیا گیا ہے ۔ بی جے پی نے وہاں اپنے مخالفین کو اقتدار سے باہر رکھنے کچھ وقت تک تو ایکناتھ شنڈے کو چیف منسٹر کی حیثیت سے برداشت کیا لیکن انتخابات میں ایکناتھ شنڈے کی پارٹی چونکہ بی جے پی سے کم نشستوں پر محدود رہی اس لئے بی جے پی نے چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرلیا ۔ بہار کے تعلق سے بھی ایسے اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں۔ ایسے میں آر جے ڈی اور کانگریس کو حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔