بیرونی سرمایہ کاروں کو زعفرانی ثقافت کی بنیاد پر دعوت ِسرمایہ کاری

   

صلاحیت کے پانچ ستون

محمد انیس الدین
سابق بینکر و این آر آئی
ملک کے وزیراعظم نے عالمی سرمایہ کاروں کو یہ بات کہہ کر دعوت سرمایہ کاری دی ہے کہ ملک عزیز میں ٹیلنٹ کے پانچ ستون ہیں۔ (1) ٹیلنٹ (2) مارکٹ (3) کیپٹل (4) ایکو سسٹم (5) کھلے پن کا کلچر عام طور پر بیرونی سرمایہ کار اس بات کا اطمینان حاصل کرتے ہیں کہ جس ملک میں وہ سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ وہاں کیا مستحکم جمہوری حکومت ہے اور ملک
GDP
اور افراط زر کی شرح اور ملک کی سرمایہ کاری کی
Rating
کی جانچ عالمی معروف
Rating Agencies
سے حاصل کی جاتی ہیں اور اگر کسی ملک میں جمہوریت کمزور ہے اور دم توڑ رہی ہے تو ایسے ملک میں سرمایہ کاری سے بیرونی سرمایہ کاری اجتناب کرتے ہیں۔ جس ملک میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے، اس ملک کے سرمایہ کار کی تاریخ بھی دیکھی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انٹرسٹ ریٹ بھی دیکھا جاتا ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرسکیں۔
ہمارے
PM
صاحب جس طریقہ سے عوام کو بیوقوف بنائے ہیں، اسی حکمت سے وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ملک کے جمہوری نظام کے ستون کو فوقیت سے بتائے بغیر بیرونی سرماییہ کاروں کو ملک کی صلاحیتوں اور خوبیوں کے جو ہر دکھاتے ہوئے اس کے پانچ ستون کھڑے کرکے سرمایہ کاروں کو دعوت سرمایہ کاری دے رہے۔
سیتا رام یچوری کے جون 2021ء کے ٹوئٹ کے مطابق قومی اثاثہ جات اور عوامی سرمایہ کی لوٹ کے بعد PM صاحب بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت سرمایہ کاری ملک کی ثقافت کے نام سے دے رہے ہیں جبکہ ملک میں نفرت اور تشدد اور ماب لنچنگ کا پھیلاؤ ہے اور اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور عوامی آزادی پر متواتر حملہ ہورہے ہیں۔ سیتا رام یچوری کے ٹوئٹ کے جواب میں مضمون نگار نے حسب ذیل ٹوئٹ کیا ہے۔ (16 جون 2021ء )’’ہم جمہوریت کے ستون بھول کر سرمایہ کاروں کو صلاحیت کے ستون
(Talents Pillar)
کی بنیاد پر دعوت سرمایہ کاری دے رہے ہیں۔ سارا عالم جانتا ہے، ہماری صلاحیتوں کو اور ہمارے ستون صلاحیت کو ، ہماری صلاحیتیں بغیر ستونوں کے ہے‘‘۔جمہوریت ایک نظام سیاسی کا نام ہے اور اس کا بنیادی اصول عوامی حکومت ہے۔ صرف ایک شخص سارے ملک کے فیصلہ کرنے کے بجائے اجتماعی رضامندی سے فیصلہ ہوں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو جمہوریت ایک اچھا نظام حکومت ہے لیکن رشوت اور جہالت اس نظام کو بدنام اور کمزور کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت اگر شفاف انتخابات کے بغیر قائم ہو تو اس نظام حکومت کو جمہوریت نہیں جمہوریت کی آڑ میں چلنے والی آمریت کا نام دیا جاتا ہے۔
ملک میں سنگین اور نامساعد حالات سے گزر رہا ہے، اس بات کا سب ہی کو بخوبی علم ہے۔ ایسے پرآشوب حالات میں ہم کو صبر اور ہوش کا دامن تھام کر حکمت اور دانائی سے کام لینا ہوگایہ مقصد صرف اور صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جبکہ سارے حقیقی محب وطن ایک مضبوط اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے کمربستہ ہوکر میدان عمل میں آجائیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ مستقبل میں ایک المیہ آمریت کی شکل میں ہمارا انتظار کررہا ہے اور ہماری غفلت ہم کو اس المیہ کے حوالہ کردے گی۔ اس متوقع المیہ سے محفوظ رہنے کی صرف ایک ہی صورت ہے۔ مضبوط اتحاد اور ایک بااثر تحریک۔
تاریخ عالم اور آزاد ہند کی تاریخ میں کبھی ایسی صورتحال کا ملک عزیز کو سامنا کرنا نہیں پڑا ہوگا جس میں ملک کے وزیراعظم کے قول اور فعل میں تضاد پایا گیا ہو اور وہ مسلسل جھوٹ اور فریب اور غلط بیانی کا سہارا لیا ہو۔ عوام ایسا کہنے میں اپنے آپ کو حق بجانب محسوس کریں گے کہ جھوٹی سرکار جھوٹا پرچار اور لاقانونیت حد سے تجاوز کر گئی‘‘۔
حیدرآباد سے بلند ہونے والی تحفظ دستور اور جمہوریت کی صدا ملک کے گوشہ گوشہ میں سورج کی کرنوں کی طرح پھیلتی جارہی ہے جس کی وجہ سے دشمنانِ جمہوریت پریشان ہیںاور ان کی رات کی نیند اور دن کا سکون برباد ہوچکا ہے اور اس جمہوری شعور کی بیداری کے مرکز حیدرآباد کو اپنی نفرت کی مہم کا نشانہ بناکر ملک کے جمہوری نظام کو پامال کرنے کیلئے جمہوریت دشمن طاقتیں مختلف طریقوں سے اس جمہوری بیداری کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور ابن الوقت عناصر کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ ایک منصوبہ بند فتنہ اور سازش کا نام ہے اور یہ عناصر عوام میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ عوام اس فتنہ سے باخبر اور ہوشیار رہیں۔