بین مذاہب شادیوں پر پابندی کی تیاری

   

رام پنیانی
الہ آباد ہائی کورٹ نے حالیہ فیصلہ میں ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کی دوسرے مذہب کے ماننے والی خاتون کے ساتھ شادی کے لئے تبدیلی مذہب کی مخالفت کی۔ لیکن شادیوں سے متعلق خصوصی قانون میں بین مذاہبی شادیاں پوری طرح قابل قبول ہیں۔ ایک مسلم خاتون نے ایک ہندو مرد سے شادی کے لئے ہندو مذہب اختیار کیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس سلسلہ میں چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ نے ان مسلم مردوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی شروع کی جو غیر مسلم لڑکیوں سے بیاہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی مسلم نوجوان، ہندو لڑکیوں سے عشق کے لئے اپنی مذہبی شناخت چھپاتے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو لبھا کر انہیں اسلام میں داخل کرلیتے ہیں ایسے مسلم مردوں کے ساتھ بڑی سختی سے نمٹا جائے گا اور ان کی ارتھی نکالی جائے گی۔ ان کے ساتھ (رام نام ستیہ ہے) کا معاملہ ہوگا۔ بالفاظ دیگر انہیں قتل کردیا جائے گا۔

مسلم لڑکوں کو سخت انتباہ دیتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات رونما ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی اور ان کی حکومت اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے سخت قانون متعارف کروائے گی۔ یوگی کے مطابق اس قسم کی سرگرمیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہوں گے اہم چوراہوں پر ان کی تصاویر پر مبنی پوسٹرس آویزاں کئے جائیں گے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کے خطوط پر عمل کرتے ہوئے یا ان کی اندھی تقلید کرتے ہوئے چیف منسٹر ہریانہ منوہر لال کتھر نے بھی بین مذاہب شادیوں کے خلاف قانون لانے کا اعلان کردیا۔ اس طرح بی جے پی کی زیر اقتدار ایک اور ریاست نے لو جہاد کے نام پر اقلیتی نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا بہانہ تلاش کرلیا ہے۔ انہوں نے بھی اعلان کردیا کہ مسلم لڑکوں سے ہندو لڑکیوں کی شادیوں کو ہر حال میں روکا جائے گا۔ سنگھ پریوار کے قائدین اس طرح کی شادیوں کو ’’لو جہاد‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اب یہ اصطلاح تشدد کے لئے اکسانے اور تشدد برپا کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے جیسا کہ ہم سب نے اترپردیش کے مظفر نگر میں سال 2013 کے دوران تشدد کا مشاہدہ کیا۔ اگرچہ بی جے پی قائدین ’’لوجہاد‘‘ کے خلاف زبردست چیخ و پکار کررہے ہیں لیکن اس کے برعکس بین مذاہب شادیوں کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہندو لڑکوں کی مسلم لڑکیوں سے اور ہندو لڑکیوں کی مسلم لڑکوں سے مسلسل شادیاں ہو رہی ہیں۔ اس ضمن میں ہم ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ نصرت جہاں کی ہندو لڑکے سے شادی کی مثال پیش کرسکتے ہیں جس کے بعد نصرت جہاں پر آن لائن بہت تنقیدیں کی گئیں۔

جہاں تک لو جہاد کا سوال ہے یہ اس وقت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا تھا جب اکھیلہ کا معاملہ منظر عام پر آیا تھا۔ اُس ہندو لڑکی نے ایک مسلم مرد سے شادی رچائی تھی اور اپنا نام تبدیل کرکے ہادیہ رکھ لیا تھا۔ ایک طویل قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ کو اس کے حقِ پسند کو برقرار رکھنا پڑا اور عدالت عظمیٰ نے کیرالا ہائی کورٹ کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے ہادیہ کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ دوبارہ ہم نے حال ہی میں جاری کردہ اور پھر واپس لئے گئے تنیشق اشتہار سے متعلق واقعہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس اشتہار میں ایک ہندو دولہن کی اس کے مسلم شوہر کے مکان میں گود بھرائی کی رسم کے مناظر دکھائے گئے جس میں ہندو لڑکی اپنے مسلم سسرال میں بہت زیادہ خوش دکھائی دیتی ہے۔ تاہم فرقہ پرستوں کو یہ اشتہار قطعی پسند نہیں آیا بلکہ ان لوگوں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اپنی شدید برہمی ظاہر کی۔ یہاں تک کہ
TANISHQ
جیسی کمپنی کے زیورات اور دیگر مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ان دھمکیوں کے پیش نظر خوف میں مبتلا
TANISHQ
نے اشتہار سے دستبرداری اختیار کرلی اور اسے واپس لے لیا۔ فرقہ پرستوں نے

TANISHQ پر لو جہاد کو فروغ دینے کے الزامات عائد کئے۔

خواتین پر مردوں کا اس طرح کا کنٹرول ہر طرف فرقہ وارانہ سیاست کا ایک جز لائنفک ہے چاہے وہ مسلم فرقہ پرستی ہو یا پھر عیسائی بنیاد پرستی مردانہ کنٹرول یا پدری کنٹرول ان کے ایجنڈوں کا اہم جز ہے۔

ہندو فرقہ پرستی کے معاملہ میں یہ بتانا کہ ہندو خواتین خطرہ میں ہیں اور وہ اسلام قبول کررہی ہیں وہ اس کا اپنا پروپگنڈہ ہے۔ ہندوتوا کے نظریہ ساز ساورکر نے شیواجی مہاراج کی اپنی تحریروں میں صرف اس لئے سرزنش کی کیونکہ انہوں نے بیسن کے مسلم صوبیدار کی بہو کو تنہا چھوڑ دیا تھا اس مسلم خاتون کو شیواجی کے سپاہیوں نے بطور تحفہ پیش کرنے کے لئے لایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ساورکر نے شیواجی کا مداح ہونے کے بجاوجود اپنی کتاب ہندوستان کی تاریخ کے سنہرے صفحات میں شیواجی کے اقتدار کو جگہ نہیں دی۔ ایک ہندو فرقہ واریت (مسلم فرقہ واریت کے خلاف متوازی طور پر) شمالی ہند میں فروغ پائی۔ فرقہ پرستوں نے ہندوستان میں مسلم آبادی میں اضافہ کو ایک خطرہ قرار دیا۔ اس سلسلہ میں ہم 1920 میں واپس ہوتے ہیں چاروگپتا نے اپنی کتاب “Myth of love Jihad” میں ایک دلچسپ خیال ظاہر کیا ہے جس میں ایسے پمفلٹس کے حوالے دیئے جس کے عنوانات اشتعال انگریز رہے جسے ’’ہندو عورتوں کی لوٹ‘‘ جس میں خواتین کے عبادت سے متعلق مسلم نقطہ نظر کی مذمت کی گئی۔

انہوں نے یہ بھی حوالہ دیا کہ آریہ سماجی کس قدر ہندو خواتین کے لئے فکر مندی کا اظہار کرتے رہے اس معاملہ میں ہندو خواتین کے لوٹ کی وجوہات نامی پمفلٹس کے حوالے بھی دیئے اور بتایا کہ وہ لوگ اس بات کو لیکر فکرمندر رہا کرتے ہیں کہ ہندو خواتین کو مسلمان ہونے سے کیسے روکا جائے۔ چنانچہ لوجہاد کے بہانہ ایسا لگتا ہے کہ وہی مہم اب بھی چلائی جارہی ہے۔ خود آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ دیا ہیکہ ہندو خواتین کو گھر کی چہار دیواری میں اور مرد کو کام کرنا چاہئے۔