بیوی کا میکے میں رہ کر شوہر سے نفقہ کا مطالبہ کرنا

   

سوال: زید کی اہلیہ اپنے شوہر کی مسلسل نافرمانی ، بدکلامی کرتی رہی، افہام و تفہیم کے بعد بھی باز نہیں آئی اور شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے گھر کو چھوڑ کر بچوں کے ساتھ اپنے ماں باپ کے پاس مقیم ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید پر ازروئے شریعت نافرمان بیوی کی خوراکی بھی ادا کرنا لازم ہوگا یا نہیں ؟
جواب : جو عورت شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری نہ کرے اور بلاحق شرعی شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے چلی جائے تو تاوقتیکہ وہ اپنے شوہر کے گھر واپس لوٹ کر اس کی شرعی اطاعت و فرمانبرداری نہ کرے شرعاً وہ ناشزہ یعنی نافرمان ہے اور ازروئے شریعت نافرمان بیوی نفقہ و خوراکی کی مستحق نہیں۔ فتاوی مہدیہ جلد اول صفحہ ۴۰۱ میں ہے : لا نفقۃ للزوجۃ مادامت ناشزۃ و خارجۃ عن طاعۃ الزوج بغیر حق و تؤمربطاعتہ ولا تقر علی النشوز لانہ معصیۃ۔ پس صورت مسئول عنہا میں بشرط صدق بیان مستفتی زید پر اس کی نافرمان بیوی کی خوراکی کی ادائی شرعاً لازم نہیں۔ فقط واللہ أعلم
از : کریم اﷲ شاہ فاتحؔ
حضرت کمال اﷲ شاہ المعروف مچھلی والے شاہ ؒ
حضرت کمال اﷲ شاہ المعروف مچھلی والے شاہ صاحب قبلہ ؒ کا اسم گرامی محمد جمال الدین اور لقب کمال اﷲ شاہ تھا ۔ سکندرآباد میں حضرت نے ذریعہ معاش کے لئے ایک دکان خشک مچھلی اور غلہ و کرانہ وغیرہ کی کھول رکھی تھی ۔ آپؒ کو فارسی اور اردو میں کافی مہارت تھی ۔ اور عربی میں ضروری صرف و نحو کے علاوہ احادیث و تفاسیر سے کافی واقفیت تھی۔ کبھی کبھی اشعار بھی لکھا کرتے تھے ۔ آپؒ کو اکثر درویشوں کا بہت خیال رہتا تھا اور ان سے استفادہ کرتے۔ ایک روز اتفاقاً حضرت سید سلطان محمود اﷲ شاہ حسینیؒ المعروف شاہ جی (متوفی ۱۳۱۱؁ ھ ) آپؒ کی دکان کی جانب سے ’’ھو حق،ھوحق ‘‘ کرتے ہوئے گزر رہے تھے اور آپؒ دُکان بند کرکے تشریف لے جارہے تھے ۔ آپؒ کو دیکھا نزدیک بلایا پھر بیعت میں داخل کیا۔ ادھر حضرت مچھلی والے شاہ صاحب کی حالت بدل گئی ۔ پھر اس کے بعد حضرت سید سلطان محمود اﷲ حسینی رحمتہ اﷲ علیہ سے آپؒ کی ملاقات ہوتی رہی بعد میں خلافت و جانشینی بھی ملی اور آپ کمال اﷲ شاہ ؒ کے خطاب سے نوازے گئے ۔ آپؒ نے ’’سرائے الٰہی چمن‘‘ کے نام سے کاچیگوڑہ میں ایک خانقاہ بنوائی اور وہاں سے حضرت کا فیضان ظاہری و باطنی عمومی و خصوصی طورپر پھیلانا شروع ہوگیا ۔دور ، دور تک پھیلا اور پھیل رہا ہے ۔ حضرت مچھلی والے شاہ صاحبؒ کی حیات شریف میں بڑے بڑے علماء باعمل صفیاء ذی مرتبت مشائخ نامور امراء اور صاحبان وجاہت و سرکاری خطاب یافتہ اشخاص آستانہ کمال پر حاضر رہا کرتے اور حضرت کے گوشہ چشم میں بار پانے کے لئے بوریہ نشینی کو سعادت سمجھتے۔ آنجہانی مہاراجہ کشن پرشاد ، سر اکبر حیدر نواز جنگ ، نواب مہدی یار جنگ ، سر نظامت جنگ، صمد یار جنگ ، نواب سعید جنگ ، مولانا انواراﷲ خاںؒ المعروف فضیلت جنگ ( بانی جامعہ نظامیہ ) مولانا برکات احمد ٹونکیؒ ، مولانا مناظر احسن گیلانی ، مولانا شاہ محمد عبدالقدیر صدیقی حسرتؔ ؒ ، پروفیسر الیاس برنی وقتاً فوقتاً حاضر رہا کرتے ۔ آپؒ کا دست کرم ہمیشہ و ہر وقت کھلا ہی رہا کسی کو دعا سے سرفراز فرمایا تو کسی کو عطا سے نوازا، حتیٰ کہ بادشاہ دکن حضور نظام میر عثمان علی خاں نے آپؒ سے کسی معاملہ میں دعا کی درخواست کی تو اﷲ تعالیٰ نے اُس دعا کی لاج رکھی اور نظام کو اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس مل گئے ۔ حضرت کو دو ازواج مبارکہ تھیں جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ آپؒ کے خلیفہ و جانشین و سجادہ نشین حضرت مولانا غوثی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ ہوئے ۔ ۲۹ ربیع الثانی ۱۳۵۱ ھ م یکم ستمبر ۱۹۳۲ ء کو آپؒ کا وصال ہوا اور سرائے الہی، الٰہی چمن کاچی گوڑہ میں آپ کی درگاہ مبارک ہے ۔