بیوی کے حقوق اور زوجین کے اختیارات

   

Ferty9 Clinic

بیوی کا شوہر پر پہلا حق یہ ہے کہ وہ مہر ادا کرے۔ فوری ادائی طے ہوئی ہو تو فوری ادا کرنا ضروری ہے اور بعد میں دینا طے ہوا ہو تو بعد میں ادا کرنا ضروری ہے۔ سخت ظالم ہے وہ شخص، جو بیوی کا یہ پہلا حق ہی مار کھائے۔ شوہر کے ذمہ یہ ایک قرض ہے، جسے بہرحال ادا ہونا چاہئے، الا یہ کہ بیوی اپنی خوشی سے معاف کردے۔ لیکن غیرت مردانگی کا تقاضہ یہی ہے کہ بیوی کا یہ حق لازماً ادا کیا جائے۔ یہ ایک طرح کا مالی تحفظ ہے، جو اسلام نے بیوی کو دیا ہے۔بیوی کا دوسرا حق نان و نفقہ ہے، یعنی شوہر کا فرض ہے کہ وہ بیوی کو اس کی ضروریات زندگی مہیا کرے۔ وہ اس کی ہر جائز ضرورت کی تکمیل کا ذمہ دار ہے۔ عورت کی فطری اور جسمانی کمزوریوں کے سبب اور معاشرے کو بعض بڑی خرابیوں سے بچانے کے لئے اسلام نے اس پر کسب (کمان) کی ذمہ داری نہیں ڈالی۔ اسلام چاہتا ہے کہ وہ گھر کی ملکہ ہو، دفتر کی ملازمہ نہ ہو۔ یہ ایک اعزاز بھی ہے، جو عورت کو بخشا گیا ہے اور ایک تحفظ بھی، جو اس کی نسوانیت کو عطا کیا گیا۔ لیکن ضروریات زندگی کی فراہمی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آئے دن وہ فرمائشیں کرکرکے شوہر کے لئے عذاب جاں بن جائے اور شوہر کو آمدنی کے ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبور کرے۔
بیوی کا تیسرا حق یہ ہے کہ (ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں) شوہر ان میں عدل و انصاف کا سلوک کرے۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ ’’اگر یہ اندیشہ ہو کہ عدل و انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو‘‘
(سورۃ النساء۔۳)
مساوی حیثیت کے انسانوں میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا اور دوسرے کو نظرانداز کردینا، اس شخص کے لئے سوہان روح ہے، جس کو نظرانداز کردیا جائے۔ اس گھٹن سے بڑا دنیا میں شاید ہی کوئی اور ذہنی عذاب ہو۔ اسلام نے چند ناگزیر وجوہ کی بناء پر اور چند افادیتوں کے پیش نظر مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے۔ یہ اجازت ہے، حکم نہیں۔ پھر یہ اجازت بھی مشروط ہے عدل و انصاف کے ساتھ۔ اگر کوئی شخص یہ شرط پوری نہیں کرسکتا تو اس کو قطعاً اجازت نہیں کہ وہ ایک سے زائد نکاح کرے اور ضرورت و تکمیل شرط کے بغیر صرف عیاشی کے لئے بار بار ’’توشہ‘‘ بنتا رہے۔اسلام نے اپنے خاندانی نظام میں زوجین کو حقوق و فرائض کے علاوہ کچھ اختیارات بھی دیئے ہیں، تاکہ ضرورت کے وقت انھیں بھی استعمال کیا جاسکے۔ سطور ذیل میں ہم ان ہی اختیارات سے متعلق مختصراً عرض کریں گے، تاکہ اسلام کے خاندانی نظام کو اس کے پورے فریم میں دیکھا جاسکے۔
طلاق کے لفظی معنی تو دور رہنے اور الگ ہونے کے ہیں، لیکن شریعت کی اصطلاح میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ معاہدۂ نکاح کو توڑکر ازدواجی رشتہ سے علحدگی اختیار کرلی جائے۔ اسلام نے یہ اختیار شوہر کو دیا ہے، بیوی کو نہیں۔
نکاح کا معاہدہ اگرچہ زندگی بھر کے لئے ہوتا ہے۔ پہلے خوب اچھی طرح اس کے متعلق سوچ لینا چاہئے اور ہر پہلو پر غور کرلینا چاہئے اور اسی وجہ سے اسلام نے مرد اور عورت کو نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لینے کی بھی اجازت دی ہے اور دونوں کی رضامندی کو نکاح کی ’’شرط‘‘ قرار دیا ہے اور شرط اس چیز کو کہتے ہیں، جس کے بغیر مشروط منعقد ہی نہ ہو۔ مثلاً وضوء نماز کے لئے شرط ہے، یعنی وضوء شرط ہے اور نماز مشروط۔ وضوء نہ ہو تو نماز ہی نہ ہوگی۔ اسی طرح مرد اور عورت کی رضامندی نکاح کی شرط ہے۔ شریعت نے یہ اہتمام معاملے کی نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر کیا ہے۔ پھر نکاح کے بعد الفت و محبت سے زندگی بسر کرنے کی پرزور تلقین کی ہے۔
اس تمام جتن کے باوجود یہ ممکن نہیں کہ دونوں میں کبھی کوئی اختلاف نہ ہو۔ زندگی کی ہمہ گیری اور اس کا تنوع ہی اس قسم کا ہے کہ اس میں اختلاف کا پیدا ہوجانا ایک فطری بات ہے۔ ایسی اختلافی صورت میں اسلام پہلے تو تلقین کرتا ہے کہ دونوں آپس میں بہر طور مصالحت کریں، اختلاف کو ختم کرلیں، لیکن جب یہ اختلافات بڑھ کر اس حد تک پہنچ جائیں کہ ان کا دور ہونا ممکن ہی نہ ہو اور دونوں کے لئے معاہدہ نکاح کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے تو آخری چارۂ کار کے طورپر اسلام نے شوہر کو طلاق کا اختیار بھی دیا ہے اور اجازت دی ہے کہ ایسی صورت میں وہ اس اختیار کو استعمال کرلے۔ لیکن طلاق کا وہ طریقہ قطعاً غیر اسلامی ہے، جو جہلاء اختیار کرتے ہیں۔ یعنی میاں جی کو غصہ آیا اور ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ کے تین فائر کرڈالے اور کپڑے جھاڑکر کھڑے ہو گئے کہ چلو چھٹی ہوئی۔ اسلام نے اس طریقۂ اختیار کو بدترین استعمال قرار دے کر اسے سخت ناپسند کیا ہے۔
طلاق کے اختیار کا جو طریقہ اسلام نے بتایا ہے وہ یہ ہے کہ خوب غور و فکر اور مصالحت کی ساری کوششوں کی ناکامی کے بعد جب طلاق دینا طے کرہی لیا جائے تو عورت کو ہر ایک طہر میں ایک ایک کرکے طلاق دی جائے اور اس دوران بھی عزیز و احباب مصالحتی کوشش جاری رکھیں۔ ان تین ماہ میں بھی مصالحت کی کوئی صورت نہ نکلے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ طلاق کو اسلام نے سخت ناپسند کیا ہے، لیکن اسے ایک آخری چارۂ کار کے طورپر ناپسند ہونے کے باوجود ضرورتاً جائز رکھا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
طلاق کی تین قسمیں ہیں: رجعی، بائن اور مغلظہ۔ طلاق رجعی وہ طلاق ہے، جس میں شوہر کو بغیر تجدید نکاح رجوع کا حق حاصل رہتا ہے۔
طلاق بائن وہ طلاق ہے، جس میں ایک یا دو طلاقوں کے بعد اندرون عدت یا بعد ختم عدت رجوع کا حق تو باقی رہتا ہے، لیکن تجدید نکاح کے ساتھ(بشرطیکہ خاتون بعد ختم عدت کسی اور سے نکاح نہ کرے ) ۔اسی طرح ’’طلاق مغلظہ‘‘ تیسری طلاق کے بعد واقع ہوتی ہے، اس میں رجوع کا حق باقی نہیں رہتا، نہ دوبارہ نکاح ہی ہوسکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرکے اس کا باضابطہ وظیفہ زوجیت ادا کرے اور پھر وہ شخص اس عورت کو کسی دباؤ کے بغیر اپنی آزاد مرضی سے کبھی طلاق دے، تب وہ اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔
کوئی مرد طلاق رجعی کا اختیار زندگی میں صرف دو ہی مرتبہ استعمال کرسکتا ہے۔ جب کوئی شخص دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کرچکا ہو تو اب عمر کے کسی حصے میں بھی تیسری طلاق دے گا تو وہ عورت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو جائے گا۔