بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کریں !

   

آج کے ترقی یافتہ نئے دور میں بھی ہمارے مسلم معاشرے کے بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں بہوا اپنی ساس کے ظلم و زیادتی کے ساتھ ساتھ اپنی شوہر کی بداخلاقی کا شکار ہورہی ہے۔ ذراسی بات پر شوہر اپنی بیوی پر برہم ہو کر برسنے لگتا ہے۔ اگر بیوی اپنی صفائی میں کچھ کہتی بھی ہے تو شوہر اسے مار پیٹ کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے تمہاری اتنی جرات مجھ سے زبان درازی کر رہی ہے، چل تو میرے گھر سے باہر نکل جا۔ آج کے بعد ترا میرا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ بے چاری جب روتے ہوئے اپنے میکے پہنچتی ہے تو ماں باپ بھی اسے ہی قصور وار ٹہراتے ہیں۔ تو نے ہی کچھ کیا ہوگا۔ اب بے چاری جائے تو کہاں جائے۔ اس کی آواز تو کوئی سننے کو تیار ہی نہیں ہے اور دوسری جانب شادی شدہ مرد حضرات اپنی بیویوں کے فرائض برابر انجام نہیں دے پاتے۔ ان کے ساتھ کنجوسی کرتے ہیں۔ خرچ کیلئے ایک روپیہ تک نہیں دیتے۔ اور خود کیلئے مرد حضرات خوب سارا روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ بے چاری عورتیں صبح سے لے کر شام تک گھر کا پورا کام کرتی ہیں۔ ساس ، سر سے لے کر شوہر اور بچوں کی خدمت کرتی ہے اور ایک منٹ کا بھی آرام نہیں لیتیں ، اگر وہ بیمار پڑ جائے اور گھر کا کام نہ کرے تو ساس اسے برا بھلا کہتی ہے۔نوکرانیوں کو بھی اس کے کام کی قیمت دی جاتی ہے۔ بے چاری عورتیں کب تک اپنے شوہر اور ساس کی ظلم و زیادتی سہتی رہیں گی۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ اسلام میں نکاح اور شادی کے بعدبیوی کی خبرگیری اور اس کانان ونفقہ رہائش وغیرہ کی ذمہ داری شوہرپرہے،اگرشوہردن میں معاش کی غرض سے باہررہتاہوتو رات اپنے گھرپرگزارناضروری ہے ، بلاضرورت گھرکے علاوہ کہیں اورقیام درست نہیں۔ اگرکوئی شخص اپنے کام کاج کی مصروفیات کے ساتھ اہل وعیال کاخیال رکھتاہو ان کی دیکھ بھال کرتا ہو اور ان کی ضروریات پوری کرتاہو، کسی شکایت کاموقع نہ دیتا ہو توایساشخص شرعی احکامات پرعمل پیرا شمار ہوگا، بیوی بچوں کووقت دینااور ان کی خبرگیری مردپرلازم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہے کہ آپؐ گھروالوں کے ساتھ گفتگو فرماتے،ان کی خبرگیری فرماتے، گھریلو کاموں میں ان کاہاتھ بٹاتے، ہنسی مذاق فرماتے، دل لگی فرماتے ،اور ساتھ ہی دیگرتمام امور بھی سرانجام دیاکرتے تھے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت میں ہمارے لیے بہترین نمونہ اور اسو موجود ہے ۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ یہ بہت بری بات ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو اس طرح مارتا ہے جیسے آقا اپنے غلام کو مارتا ہے۔ یہ کتنی بداخلاقی اور بے غیرتی کی بات ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو اس طرح مارے جس طرح غلام کو مارا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں نیک و بہترین شخص وہ ہے کہ جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ ان کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھے۔ شوہروں کو چاہے کہ دو اپنی بیویوں کے ساتھ ہر بات شیئر کریں، انہیں اپنے خطوط پڑھائیں، انہیں اپنی دراز میں چیک کرنے کے مواقع فراہم کریں، انہیں کسی بھی معاملے پر آزادانہ بات اور اظہار کرنے کا حق دیں انہیں ہر مسئلے اور معاملے سے واقف رکھیں، آفس میں بے جا وقت گذاری سے پر ہیز کریں، اپنی بیویوں کو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دیں ۔ انہیں سمجھیں اور انہیں پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں کیونکہ کسی بھی رہتے ہیں اس چیز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ جب شوہر اپنی بیویوں کو یہ اہمیت نہیں دیتے ان سے اپنی باتیں اور معاملات چھپاتے ہیں یا ان سے جھوٹ بولتے ہیں تو ان میں یہ ٹک کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے نقصان دو فیصلے کی طرف چلی جاتی ہے جس سے ایک خاندان اور گھر تباہ ہو جاتا ہے۔میں معاشرے کے تمام مسلمان مرد حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئیں۔ گھر کے حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں ہمیں اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ ہم ہر حال میں خود کو قابو میں رکھیں گے۔ ہماری ذراسی بداخلاقی اور مار پیٹ گھر کا چین وسکون خراب کر سکتی ہے اور ہماری زندگی کو ہمیشہ کیلئے تباہ و برباد کر سکتی ہے۔میاں بیوی کارشتہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، اور اس کے دوام اور پختگی کیلئے ایک دوسرے کے حقوق کالحاظ کرنااورباہمی الفت ومحبت کو قائم رکھنالازم اور ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو سنت رسول پر چلنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
٭٭ ٭ ٭٭