سید شمس الدین مغربی
آج کے اس تعلیم یافتہ دور میں بھی مسلم معاشرے میں بچیوں کے ساتھ حسن سلوک اللہ کو اتنا پسند ہے کہ اسکے مقابلہ میں گناہ بھی معاف ہو سکتے اور بچیوں کے ساتھ اچھا معاملہ اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں جہنم سے دوری اور رسول اللہ ؐ کے قریب جنت میں رہنے کا ذریعہ ہے۔ آج بھی بعض گھر ایسے ہیں جہاں پر بیٹیوں کی پیدائش پر ان کا خاندان غم اور افسوس کا اظہار کرتا ہے اور گھر میں کئی دن تک غم کا ماحول چھایا رہتا ہے اور وہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کاش ہمارے گھر لڑکا پیدا ہو جاتا۔ مسلم معاشرے میں زوال پذیر معیار زندگی کی سب سے بڑی وجہ عصری علوم سے بچیوں کو محروم رکھنا ہے اور تعلیم و ملازمت کے سلسلہ میں لڑکیوں کو وہ سہولت حاصل نہیں ہے، جو ہونی چاہیے۔ لڑکیوں کو یہ کہہ کر تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے کہ انہیں کونسی نوکری کرنی ہے، تعلیم حاصل کر کے کیا کریں گی ؟ ایک دن تو شادی ہونی ہے۔ لڑکیوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ صنف نازک ہوتی ہیں اور کسی بھی ذمہ داری کو بخوبی انجام نہیں دے سکتی۔ جتنا پیار بعض والدین اپنے بیٹوں سے کرتے ہیں، اس کا عشر عشیر بھی اپنی بیٹیوں سے نہیں کرتے اور ان کی ضرورتوں اور خواہشات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ اس کے یہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آ کر کہتے ہیں کہ اے گھر والو تم پر سلامتی ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں وہ عورت اپنی تنگ دستی کا ذکر کرنے لگی اور مجھ سے کچھ مدد کا سوال کیا، اتفاق ایسا تھا کہ میرے گھر میں ایک کھجور کے سوا کچھ نہیں تھا میں نے وہی کھجور اس کو دیدی اور عورت نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کر کے ایک ٹکڑا ایک بچی کو اور ایک ٹکڑا دوسری بچی کو دیدیا اور اُٹھ کر چلی گئی مجھے اس ماں کی محبت پر تعجب ہوا کہ اس نے اپنے مقابلہ میں اپنی بچیوں کو ترجیح دی… وہ گئی اور حضرت محمدﷺ گھر میں تشریف لے آئے تو میں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعہ کو آپؐ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص بچیوں کی طرف سے آزمائش میں پڑگیا تو بچیاں قیامت کے دن اس کیلئے جہنم کی آگ سے دیوار اور حفاظت بن جائیں گی‘‘۔(سنن الترمذی) اے لوگو! بیٹیوں کی قدر کرو یہ بڑے ہی نازک ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس شخص کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی، وہ اس کو تکلیف نہ پہنچائے اور نہ لڑکوں کو ان پر ترجیح دے اور نہ لڑکی کے ساتھ توہین آمیز معاملہ کرے تو ایسا شخص قیامت کے روز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوگا۔ والدین کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ آج کے بعد وہ لڑکی کی پیدائش پر خوش دلی کا اظہار کریں گے۔