بیکاری عذاب ہے یا رب

   

ڈاکٹر قمر حُسین انصاری
بیکار آدمی کا ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے جو شیطانی خیالات اور وسوسوں کو جنم دیتا ہے اور اُنکی پَرورِش کرتا ہے ۔ہمیں بُرائی کی طرف راغب کرتا ہے ۔بیکاری ہمیں دھان کے کھیت میں ایک بجھ کاگ ( Scary Crow ) کی طرح بے حِس و حرکت بنا دیتی ہے ۔ جب کہ ہماری یہ دُنیا ہماری آنے والی زندگی کیلئے بیج بونے اور اُسے پروان چڑھانے کی جگہ ہے ۔ ’’یہ دُنیا آخرت کی کھیتی ہے ‘‘۔ ہماری زندگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے ہر وقت کے کام اور معمولات زندگی کو با معنی اور فائدہ مند بنائیں ۔رسول اللّه ﷺ فرماتے ہیں : ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن سے لوگ غفلت کا شکار رہتے ہیں اور وہ ہیں صحت اور خالی وقت ‘‘۔
جی ہاں کتنے ہی صحت مند جسم اور وقت رکھنے والے لوگ اپنی زندگی بغیر کام کےاور بے مقصد گزار دیتے ہیں۔ اللّه تعالیٰ فرماتا ہے : ’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بےفائدہ پیدا کیا ہے اور یہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟‘‘[سورۃ المومنون- ۱۱۵]
معاشرہ بہت سی بُرائیوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے اگر خالی اوقات کاصحیح استعمال کرنے کا انتظام کر لے اور ہر فرد کو دُنیا اور آخرت کے لئے مفید سرگرمیوں میں لگا دے۔ جیسے : دینی اور دُنیاوی علوم حاصل کرنے میں ، اپنے پیشے میں ہُنرمندی حاصل کرنے میں فلاحی کاموں میں مصروف رہنے میں ، بِلا لحاظ مذہب و مِلّت ، انسانیت کی خدمات میں ، اپنے بچوں کی اچھی تربیت میں وغیرہ وغیرہ !لیکن جب ہم اپنی ذِمّہ داریوں سے دور بھاگنے لگے ، بیکاری میں وقت گزارنے لگے، تو آپس میں فتنے پیدا ہونے لگے ، ایک دوسرے سے لڑنے اور جھگڑنے لگے ۔ہماری بیکاری نے نہ جانے کتنی صلاحِیتوں کو تباہ کر رکھا ہے جس کے پیچھے ہماری ذلت و غربت کا سلسلہ جاری ہے ۔
ایک حدیث مبارکہ میں آتا ہے : ’’ اللہ تعالیٰ ہُنر مند مومن کو پسند کرتا ہے ‘‘۔
پِھر کیوں نہ ہم ایک ہُنرمند مومِن بن جائیں اور انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں ۔ ہماری نسلیں در نسلیں اس دُنیا و آخرت میں اُسی وقت کامیاب ہونگیں جب ہم اپنی طرزِ زندگی بدلیں گے ، بیکاری سے نجات حاصل کریںگے ، بامقصد زندگی گزاریں گے ، اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے دنیاوی علوم ، سائنس اور پیشوں میں مہارت حاصل کریں گے !