بی آر ایس کی مشکلات اور کے سی آر

   

اک آئینہ خانہ میں سجائے گئے اصنام
پھر آئینہ خانہ ہے، نہ دیوار نہ در ہے
اقتدار سے محرومی کے ساتھ ہی بھارت راشٹرا سمیتی کی مشکلات کا آغاز ہوگیا تھا ۔ چیف منسٹر کا عہدہ چھوڑنے کے چند ہی دن میں کے سی آر اپنے فارم ہاوز میں گرپڑے اور ان کو چلنے پھرنے سے معذوری ہوگئی تھی ۔ ان کا علاج اور آپریشن ہوا اور اب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہیں۔ کانگریس اقتدار کے 100 دن کی تکمیل تک بی آر ایس کی مشکلات میں بھی سوگنا اضافہ ہونے لگا تھا ۔ پارٹی سے سیاسی قائدین کے تخلیہ اور انحراف کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اب یہ سلسلہ ایک طرح سے شدت اختیار کرتے ہوئے بی آر ایس کی مشکلات میںمزیدا ضافہ کا باعث ہوگیا ہے ۔ بی آر ایس سے ایسے قائدین تک انحراف کرتے ہوئے کانگریس میں شمولیت اختیار کرر ہے ہیںجنہیںکے سی آر کا انتہائی قریبی اور رازدار سمجھا جاتا تھا ۔ پارٹی جنرل سکریٹری کے عہدہ پر فائز کے کیشو راؤ اور ان کی دختر مئیر حیدرآباد گدوال وجئے لکشمی بھی کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں۔ سابق ڈپٹی چیف منسٹر کڈیم سری ہری اور ان کی دختر نے پارٹی چھوڑ دی ہے اور کانگریس کا دامن تھام لیا ہے ۔ کڈیم سری ہری خود رکن اسمبلی ہیں اور ان کی دختر کو ورنگل سے لوک سبھا انتخابات میں مقابلہ کا ٹکٹ دیا گیا تھا ۔کڈیم کاویا نے ٹکٹ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کانگریس میںشمولیت اختیار کرلی اور امید ہے کہ وہ کانگریس ٹکٹ پر لوک سبھا کیلئے مقابلہ کرینگی ۔ اسی طرح چیوڑلہ کے رکن پارلیمنٹ رنجیت ریڈی کو بھی بی آر ایس نے ٹکٹ کا اعلان کردیا تھا اور رنجیت ریڈی نے اسے قبول بھی کرلیا تھا تاہم وہ بھی بعد میں منحرف ہوگئے اور انہوںنے کانگریس میںشمولیت اختیار کرلی ہے ۔ کئی قائدین ایسے ہیں جو کانگریس پارٹی میں باضابطہ شامل ہوچکے ہیں تو کئی ایسے ہیں جو ساری تیاریاں کرچکے ہیں اور عین انتخابات سے قبل کسی بھی وقت بی آر ایس کی کشتی سے اتر سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں بی آر ایس کیڈر اور قائدین کے حوصلے پست ہوچکے ہیں۔ ان میں ایک طرح سے مایوسی پیدا ہوگئی ہے ۔ اس کا اندازہ کے سی آر کو اچھی طرح ہوگیا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ کے سی آر کسانوں سے ہمدردی کے نام پر اور ان کی فصلوںکے نقصان کا جائزہ لینے کے نام پر اضلاع کے دوروں کا آغاز کر رہے ہیں۔
جس طرح سے بی آر ایس کے اقتدار میں ریاست میں صرف تین چار سیاسی چہرے ہی دکھائی دیتے رہے ہیں اب بھی بی آر ایس کیلئے وہی صورتحال ہے ۔ کے سی آر کے علاوہ کے ٹی آر اور ہریش راؤ ہیں جو عوام میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ایسے میں دوسرے قائدین کیلئے چاہے وہ رکن اسمبلی ہوں یا پھر رکن پارلیمنٹ ہوں عوام میں پہونچ کر ان کی تائید حاصل کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ اپنے اقتدار میں کے سی آر نے ایک طرح سے تمام ارکان اسمبلی اور وزراء تک کو ایک حد میں رکھا تھا اور انہیں بلا اجازت کسی کام کا موقع نہیں ملا کرتا تھا ۔ کئی ارکان اسمبلی اور قائدین ایسے تھے جو محض اقتادر کی وجہ سے بی آر ایس میں بنے رہے تھے اور اب جبکہ ریاست میں بی آر ایس اقتدار سے محروم ہوچکی ہے تو وہ لگاتار پارٹی چھوڑنے میں مصروف ہیں۔ کے سی آر کو اب اپنی پارٹی کی حقیقی صورتحال کا اندازہ ہوگیا ہے اور اب لوک سبھا انتخابات کا ماحول بھی گرم ہونے لگا ہے اسی لئے وہ کسانوں کے نام پر ریاست میں عوام سے رابطے بحال کرنے کیلئے اضلاع کے دورے کر رہے ہیں۔ کے سی آر پہلے بھی اضلاع کے دورے کرتے رہے ہیں تاہم موجودہ صورتحال ان کیلئے پریشانیوں کا باعث ہے ۔ ریاست میں عملا بی آر ایس کی سیاسی اہمیت انتہائی کم ہوگئی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات صرف کانگریس اور بی جے پی میں مقابلہ کہے جا رہے ہیں اور اس میں بھی واضح برتری کانگریس کو حاصل ہے ۔ ایسے میں کے سی آر اپنی پارٹی کیلئے عوامی تائید جٹانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
کے سی آر نے اپنے دس سالہ اقتدار میں دوسری جماعتوں کے ساتھ اور خاص طور پر کانگریس کے ساتھ وہی حال کیا تھا جب اب ان کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کانگریس کو اپوزیشن کے موقف سے تک محروم کرتے ہوئے اس کے ارکان اسمبلی کو اپنی صفوںمیںشامل کیا تھا ۔ اب وہی صورتحال انہیںدرپیش ہے اور انہیں اس کی سنگینی اور تکلیف کا احساس ہونے لگا ہے ۔ حالانکہ کے سی آر اضلاع کے دورے شروع کر رہے ہیں لیکن ان کیلئے عوام کی تائید و حمایت دوبارہ حاصل کرنا اور پارٹی کے وقار کو بحال کرنا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا ۔