بی آر ایس کے مسلم قائدین کی زبانیں گنگ ہوگئیں

   

اقلیتی کالج کی طالبہ کے ساتھ شرمناک واقعہ ، ٹمریز کے عہدیداروں کی معنیٰ خیز خاموشی
حیدرآباد۔5۔اپریل (سیاست نیوز) بھارت راشٹر سمیتی کے مسلم قائدین کی زبانیں گنگ ہوچکی ہیں اور کوئی مسلم قائدین اپنی حکومت میں ہونے والے گناہوں پر برہمی تو دور ندامت کا اظہارکرنے کے لئے بھی آمادہ نہیں ہے۔تلنگانہ اقلیتی اقامتی جونیئر کالج نارائن کھیڑ میں پیش آئے شرمناک واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف ٹمریز کے عہدیداروں نے اب تک کوئی باضابطہ شکایت درج کروانے کی زحمت گوارہ نہیں کی بلکہ واقعہ کو اب بھی معمولی قرار دینے اور اس کی سنگین نوعیت کو گھٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے مسائل اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف شکایت کے لئے حکومت نے ایک ماہ قبل تلنگانہ ریاستی اقلیتی کمیشن کی تشکیل عمل میں لائی تھی لیکن افسوس کہ تلنگانہ حکومت کے محکمہ اقلیتی بہبود کی زیر نگرانی چلائے جانے والے ادارہ ٹمریز کے جونیئر کالج میں پیش آئے شرمناک و قابل مذمت واقعہ پر تلنگانہ ریاستی اقلیتی کمیشن سو رہا ہے اور کمیشن کے ذمہ داروں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ ریاست میں عبدالقدیر کی پولیس حراست میں موت کا معاملہ ہویاسیکریٹریٹ کی مساجد کی تعمیر میں تعطل کا مسئلہ ہو اقلیتیں کمیشن سے رجوع ہوسکتی ہیں لیکن اب تو ٹمریز میں اقلیتوں کی عزت سے کھلواڑ ہوتا رہا اور اقلیتی کمیشن سوتا رہا۔دستوری عہدوںپر سیاسی افراد کے تقرر کے نتیجہ میں انصاف رسانی کا عمل مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے اس کا ثبوت اقلیتی کمیشن کی خاموشی سے ملتا ہے۔ تلنگانہ اقلیتی اقامتی جونیئر کالج میں نابالغ طالبہ کے لڑکی کو جنم دینے کے واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کے سلسلہ میں برسراقتدار جماعت یا کسی اور گوشہ سے کوئی آواز اٹھتی نظر نہیں آرہی ہے اور کہا جا رہاہے بی آر ایس میں شامل سرکردہ مسلم قائدین مختلف تنظیموں کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کرتے ہوئے انہیں اس مسئلہ کو نہ اٹھانے اور اس پر مکمل خاموشی اختیار کرنے کے لئے کئی طرح کی پیشکش کررہے ہیں تاکہ انتخابات کے سال میں مسلمانوں کو پارٹی سے دور ہونے سے بچایا جاسکے۔ ذرائع کے مطابق اعلیٰ عہدیدارجو اس واقعہ سے واقف تھے نے 24 مارچ سے اب تک واقعہ کی کامیاب پردہ پوشی کی اور اب اس جونیئر کالج کے بعض ذمہ داروں کو معطل کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ اس اندوہناک واقعہ سے کوئی واقف ہی نہیں تھا ۔ بی آر ایس میں شامل مسلم قائدین کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ پر آواز اٹھاتے ہوئے نااہل اور غیر ذمہ دار عہدیداروں کے خلاف کاروائی کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں ۔بتایاجاتا ہے کہ بی آر ایس کے مسلم قائدین جنہیں ملت کی ایک بیٹی کے ساتھ پیش آئے اس سنگین واقعہ پر برہمی کا اظہار کرنا چاہئے وہ مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں سے رابطہ کرتے ہوئے انہیں مصلحت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور کہا جار ہاہے کہ اگر اس طرح کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں تو حکومت کی اسکیم بدنام ہوجائے گی۔م