بی آر ایس ۔ بی جے پی سازباز کا الزام

   

نہ تم ہمیں جانو، نہ ہم تمھیں جانیں
مگر لگتا ہے کچھ ایسا میرا ہمدم مل گیا
کانگریس پارٹی تلنگانہ میں ابتداء سے یہ الزام عائدکرتی رہی ہے کہ ریاست میں کانگریس کو روکنے کیلئے بی آر ایس اور بی جے پی میں ساز باز ہوا ہے ۔ بی جے پی بھی اس الزام کی تردید کرتی رہی اور بی آر ایس کی جانب سے بھی اس کی نفی ہوتی رہی ۔ تینوں جماعتیں خود کو چھوڑ کر دوسری دو جماعتوں پر ایک دوسرے سے ساز باز اور خفیہ سمجھوتہ کا دعوی کرتی رہی ہیں۔ کسی بھی پارٹی نے تاہم اس کو باضابطہ طور پر قبول نہیں کیا تھا تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ بی آر ایس اور بی جے پی کے ساز باز کی توثیق ہونے لگی ہے ۔ یہ تاثر عوام میں پھیل گیا تھا کہ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی آر ایس نے بی جے پی کی در پردہ مدد کی ہے ۔ اس کے کارکنوں نے اپنے ووٹ بی جے پی کو منتقل کروائے ہیں۔ اسی وجہ سے تلنگانہ میں بی جے پی کو آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل ہو پائی تھی ۔ گذشتہ دنوں بی آر ایس ہی کی رکن قانون ساز کونسل کے کویتا نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ دہلی شراب اسکام کے سلسلہ میں جب جیل میں تھیں بی آر ایس کو بی جے پی میںضم کرنے کی کوشش ہوئی تھی ۔ کویتا نے کہا تھا کہ انہوں نے اس کی مخالفت کی تھی اور ان کا واحد ایجنڈہ بی آر ایس کو بچانا ہے ۔ پھر بی جے پی کی جانب سے بھی توثیق ہوئی کہ بی جے پی کے کئی قائدین انتخابات کے موقع پر ہمیشہ بی آر ایس سے ساز باز کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ بی جے پی کے اہم قائدین نے اس کی تائید نہیں کی ہے لیکن بی جے پی کے ملعون رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ نے اس کی توثیق کی ہے ۔ انہوں نے بی جے پی کے کئی قائدین پر بی آر ایس کے ساتھ ساز باز کرنے کے الزامات عائد کئے ہیں۔ اس طرح یہ بات اب کھلنے لگی ہے کہ بی آر ایس نے انتخابات کے موقع پر بی جے پی سے ساز باز کیا ہے ۔ کانگریس کی جانب سے اکثر و بیشتر یہ الزامات عائد کئے جاتے رہے تھے کیونکہ کئی مواقع ایسے آئے تھے جب بی آر ایس نے اہم مواقع پر مرکز میں بی جے پی کی حمایت کی تھی ۔ اس کے فیصلوں پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان کی والواسطہ مدد کی تھی ۔ عوام میں بھی یہ تاثر عام ہوگیا تھا ۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آنے لگی ہے تو بی جے پی نے اس کی تردید کی سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ تاہم بی آر ایس کو اس معاملے پر کھل کر وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔
یہ بات طئے ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ در پردہ مفاہمت کرتی ہیں ۔ وہ سیاسی مصلحت کے تحت اس مفاہمت کا کھل کر اظہار نہیں کرپاتیں۔تاہم جہاں تک بی آر ایس کا سوال ہے تو س نے کئی مواقع پر یہ اشارے دیدئے تھے کہ وہ در پردہ بی جے پی کی مدد کر رہی ہے ۔ تین طلاق کے قانون کا مسئلہ ہو یا پھر فی الحال موضوع بحث وقف ترمیمی قانون کا مسئلہ ہو ان پر بی آر ایس یا اس کی اعلی قیادت نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ بی جے پی کو محض دکھاوے کیلئے تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا تھا اور مسائل کی بنیاد پر کوئی مخالفت نہیں کی گئی تھی ۔ بی آر ایس نے اپنی سلور جوبلی کے سلسلہ میں ایک بڑا جلسہ عام ورنگل میں منعقد کیا تھا ۔ اس میں بھی بی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر رؤ نے کانگریس ہی پر اپنی بھڑاس نکالی تھی اور بی جے پی کے تعلق سے انہوں نے بالکل خاموشی اختیار کرلی تھی ۔ یہ باتیں خود کے چندر شیکھر راؤ کی دختر کے کویتا نے انہیںتحریر کردہ اپنے مکتوب میں کہی ہیں۔ اس طرح ان الزامات کو محض سیاسی تنقید یا الزام قرار دیتے ہوئے مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کا انکشاف کے کویتا نے کیا ہے ۔ ایسے میں بی آر ایس اور کے چندر شیکھر راؤ کو وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی کے تعلق سے ان کا موقف کیا ہے ۔ وہ ریاست کی اقلیتوں کے ہمدرد ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ انہوں نے دس سال اقتدار پر رہتے ہوئے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے وعدہ کو فراموش کردیا تھا ۔ اس کا تذکرہ تک نہیں کیا گیا ۔ بی آر ایس کے اقلیتی قائدین نے بھی اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی تھی یا پھر انہیں خاموش کروادیا گیا تھا ۔
بی آر ایس ہو یا بی جے پی ہو انہیں کسی بھی پارٹی سے اتحاد یا مفاہمت کرنے کا اختیار ہے تاہم یہ کھل کر کیا جانا چاہئے ۔ در پردہ مفاہمت کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے سے انہیںگریز کیا جانا چاہئے ۔ بی جے پی کی اپنی پالیسی ہے ۔وہ کسی کا بھی ہاتھ پکڑ کر اپنے قدم جماتی ہے اور پھر اسی جماعت کو توڑ پھوڑ کا شکار کردیتی ہے ۔ اس کی ملک کی کئی ریاستوںمیں مثالیں موجود ہیں۔ تاہم جہاں تک بی آر ایس کا سوال ہے تو اس کو ریاست کے عوام کے سامنے جواب دینا چاہئے کہ آیا وہ کھل کر بی جے پی سے اتحاد کرے گی یا پھر عوام کو گمراہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا ۔ جمہوری عمل میں عوام ہی سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسے میں عوام کے سامنے بی آر ایس کو اپنے سیاسی موقف کو واضح کرنا چاہئے اور اب جو انکشافات ہو رہے ہیں ان کی سچائی کے تعلق سے وضاحت کرنی چاہئے ۔
ٹرمپ کے دعووں کی حقیقت
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے ان دعووں کا سلسلہ بند نہیں کر رہے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کروائی ہے ۔ وہ ایک سے زائد مواقع پر ایسے دعوے کرچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تجارتی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے جنگ بندی کروانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ہندوستان نے حالانکہ ان کے دعووں کی تردید کردی ہے تاہم ٹرمپ کئی مواقع پر لگاتار اس طرح کے دعوے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ حکومت ہند کو اس معاملے میں ٹرمپ سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے دعووں کا سلسلہ بند کیا جانا چاہئے ۔ جو حقائق ہیں انہیں منظر عام پر لاتے ہوئے ٹرمپ کے دعووں کی نفی کی جانی چاہئے تاکہ عوام کے ذہنوں میں جو سوال پیدا ہو رہے ہیں ان کا ازلہ ممکن ہوسکے ۔ پاکستان سے جنگ ہندوستان کا اپنا مسئلہ ہے اور اس میں امریکی صدر کے دعووں سے الجھن پیدا ہو رہی ہے ۔ یہ سلسلہ اب روکے جانے کی ضرورت ہے ۔