جو ذمہ داریاں قسمت نے میرے سر رکھ دیں
تو پھر نزاکتیں میں نے اٹھاکے گھر رکھ دیں
ملک کی 12 ریاستوں میں فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی کا عمل پوری شدت کے ساتھ چلایا جارہا ہے ۔ اس عمل پر اپوزیشن جماعتوںکی جانب سے کئی طرح کے عتراضات کئے جا رہے ہیںاس کے باوجود الیکشن کمیشن کسی اعتراض کو خاطر میں لانے حتی کہ اس کا جائزہ تک لینے کو تیار نہیں ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ٹیچرس اور دوسرے ورکرس کو ووٹر لسٹ میں خامیوںکو دور کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ہر ریاست میںکروڑوں ووٹرس کی جانچ پڑتال کرنے اور فہرست سے خامیوں کو دور کرنے کیلئے محض چند ہزار افراد کو ذمہ داری دی گئی ہے بلکہ یہ کہا جانا چاہئے کہ ان پر بوجھ عائد کردیا گیا ہے اور انہیں وقت بھی مختصر ترین دیا گیا ہے کہ وہ اس کام کو پورا کریں۔ اپوزیشن جماعتوںکے جو اعتراضات ہیں وہ ایک الگ پہلو ہیں لیکن بی ایل اوز پر جو کام کا دباؤ ڈال دیا گی وہ کئی ریاستوں میں بی ایل اوز کی اموات کا سبب بن رہا ہے ۔ جن ریاستوںمیں ایس آئی آر کا عمل چل رہا ہے ان میں درجنوں بی ایل اوز نے خودکشی کرلی ہے ۔ کچھ کام کے دباؤ کی وجہ سے اور کچھ عہدیداروں کے طرز عمل کی وجہ سے اپنی زندگیوںکو ختم کر رہے ہیں۔ درجنوں خاندان اس عمل کی وجہ سے بے سہارا ہوگئے ہیں۔ کئی خواتین کا سہاگ اجڑ گیا ہے اور کئی بچے یتیم و یسیر ہوگئے ہیں۔ کئی مائیں اپنی اولاد سے محروم ہوگئی ہیں۔ سارا کچھ ہو رہا ہے لیکن اگر نہیں ہو رہا ہے تو محض الیکشن کمیشن حرکت نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی اس تعلق سے کسی پر کوئی ذمہ داری عائد کی جا رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اموات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔ جو گھر اجڑ رہے ہیں ان کا کون پرسان حال ہوگا ۔ مرکزی حکومت بھی اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کرچکی ہے اور الیکشن کمیشن تو ایسا لگتا ہے کہ نہ کچھ دیکھ رہا ہے ۔ نہ کچھ سمجھ رہا ہے اور نہ ہی کچھ کرنے کو تیار ہے ۔ اس نے محض بی ایل اوز پر کام کا بے تحاشہ دباؤ ڈال دیا ہے اور چاہتا ہے کہ چاہے کچھ ہوجائے یہ عمل انتہائی معمولی سے وقت میں پورا کیا جائے ۔ اس کے پس پردہ محرکات کیا کچھ ہیں اس کا بھی صرف الیکشن کمیشن کو ہی عمل ہے اور کوئی کچھ نہیں جانتا ۔
یقینی طور پر ایس ئی ر کا عمل ہونا چاہئے ۔ فہرست رائے دہندگان کو نقائص سے پاک کیا جانا چاہئے اور فرضی ووٹ اگر ہیں تو ان کو حذف کیا جانا چاہئے جو اہل افراد ہیں ان کے نام فہرست رائے دہندگان میں شامل کئے جانے چاہئیں۔ چونکہ ہندوستان ایک کثیر آبادی والا ملک ہے اور ہر ریاست میں کروڑوں لوگ رہتے بستے ہیں اورووٹرس کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے ۔ کچھ ریاستوںمیںتو 10 کروڑ سے زائد رائے دہندے بھی موجود ہیں۔ ایسے میں محض چند ہفتوں کے وقت میں اور محض چند ہزار افراد پر ووٹر لسٹ پر نقائص دور کرنے کی ذمہ داری عائد کی جاتی ہے تو یہ ذمہ داری نہیں بلکہ ایک بوجھ ہی کہا جاسکتا ہے جو ان بے قصور افراد پر ڈال دیا گیا ہے جس کی وجہ یہ لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انتہائی کم وقت میں بے تحاشہ کام کی وجہ سے فہرست رائے دہندگان سے نقائص دور ہونے کی بجائے مزید نقائص پیدا ہونے کے اندیشے پائے جاتے ہیں اور اس طرح کے کچھ واقات بھی سامنے آئے ہیں ۔ایسے میں ایس آئی آر کے عمل کے جو مقاصد ہیں وہی فوت ہوجاتے ہیں۔ فہرست شفاف اور نقائص سے پاک ہونے کی بجائے مزید غلطیوں سے پر ہوسکتی ہے ۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کو اس بات پر غور کرنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جہاں ایس آئی آر کیا جانا چاہئے وہیں اس عمل کیلئے مناسب وقت دیا جانا چاہئے ۔ کام کے بوجھ کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے تاکہ لوگ اپنی زندگیوں کو ختم کرنے پر مجبور نہ ہوجائیں۔
الیکشن کمیشن یقینی طور پر ایک دستوری ادارہ ہے اور وہ اپنے کام کاج کو آگے بڑھانے کا مجاز بھی ہے لیکن وہ بھی کسی پر غیرواجبی بوجھ عائد کرتے ہوئے خودکشی پر مجبور نہیںہوسکتا ۔ جس طرح سے کمیشن کی جانب سے ایس آئی آر کا عمل آگے بڑھایا جا رہا ہے اس سے یہ شبہات تقویت پارہے ہیں کہ ایس آئی آر کی آڑ میں دوسرا کچھ کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے تاہم کمیشن کو بی ایل اوز کی اموات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں مناسب سہولیات فراہم کرنا چاہئے اور ایسا ماحول فراہم کیا جانا چاہئے کہ وہ اطمینان کے ساتھ نقائص سے پاک فہرست تیار کرپائیں اور اپنی زندگیوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔