بی بی سی نے سچ دکھایا تو مودی جی کو غصہ آیا

   

رام پنیانی
ہندوستان میں بی بی سی کے دفاتر پر انکم ٹیکس سروے (دھاوے) جو 14 فروری 2023ء کو شروع ہوئے تھے، تین دن بعد روک دیئے گئے جبکہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے اسے ’’سروے‘‘ کا نام دیا جبکہ کئی کالم نگاروں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی ایجنسیوں نے اسے ’’دھاوے‘‘ قرار دیا۔ عالمی میڈیا نے انکم ٹیکس کی اس کارروائی کو بی بی سی کی دستاویزی فلم انڈیا انڈیا: دی مودی کوئسچین‘‘ سے جوڑا اور کہا کہ یہ ہندوستان میں جمہوری اِداروں پر مودی حکومت کا ایک اور حملہ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے آکار پٹیل نے خاص طور پر یہ بات کہی ہے۔ ان کے خیال میں ہندوستانی حکام، بی بی سی کو ہراساں کرنے اور اسے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس کو حکومت کے ناقدین اور ناراض عناصر کو خاموش کرنے کیلئے بار بار استعمال کیا جارہا ہے۔ مودی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، اس تعلق سے امریکی اور برطانوی حکومتوں کی کوشش پوری طرح واضح ہے۔
آپ کو بتادیں کہ گجرات فسادات اور ان میں نریندر مودی کے کردار کو لے کر تیار کردہ بی بی سی کی دستاویزی فلم دو حصوں میں ہے۔ پہلے حصہ میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں نریندر مودی کے کردار کو پیش کیا گیا اور فلم کے دوسرے حصہ میں مودی کی اقلیت دشمن پالیسیوں کا احاطہ کیا گیا جو انہوں نے ہندوستانی وزیراعظم کی حیثیت سے بھی جاری رکھی ہے۔ اس دستاویزی فلم کا پہلا حصہ عالمی سطح پر 17 جنوری 2023ء کو نشر کیا گیا اور ہندوستانی شائقین نے بھی اس کا مشاہدہ کیا لیکن مودی حکومت نے اپنے ہنگامی اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی عائد کرنے میں تاخیر نہیں کی۔ اسی دوران فلم کی لنک ٹوئٹر کے ذریعہ وائرل ہوگئی اور بے شمار افراد نے اسے ڈاؤن لوڈ کرکے اسے دیکھا۔ طلبہ کے کئی گروپس نے اس کی نمائش کا منصوبہ بنایا۔ چند ایک کو فلم دیکھنے میں کامیابی ملی اور دوسروں کو پولیس نے فلم دیکھنے سے روک دیا یا پھر عین اس وقت کارروائی کردی جب فلم دیکھی جارہی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت نے بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کیوں کی؟ جہاں تک فلم کے پہلے حصہ کا سوال ہے، اس میں سابرمتی ٹرین کے کوچ نمبر S-6 میں لگی آگ کے بارے میں دکھایا گیا جن کے بارے میں بی جے پی کا خیال ہی نہیں دعویٰ ہے کہ اس ڈبے میں مسلمانوں نے آگ لگائی تھی۔ (بی جے پی کے اس دعوے کے نتیجہ میں ریاست میں فسادات بھڑک اُٹھے ) بی جے پی نے بی بی سی کی اس دستاویزی فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے تعصب و جانبداری پر مبنی اور معروفیت سے عاری ہونے کے ساتھ ساتھ نوآبادیاتی ذہنیت کا تسلسل قرار دیا۔ چنانچہ اسی تحقیقاتی رپورٹ کو بی بی سی کی ڈاکیومنٹری میں پیش کیا گیا۔ اپریل 2002ء میں برطانوی تحقیقاتی رپورٹ تیار کی گئی جس میں بہت سارے پریشان کن انکشافات کئے گئے۔ اس تحقیقات سے بھیانک حقائق سامنے آئے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ گجرات میں مسلمانوں کی منصوبہ بند انداز میں ’’نسل کشی‘‘ کی گئی۔ فسادات سے جو لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ ان کے بارے میں جو سرکاری اعداد و شمار جاری کئے گئے، مہلوکین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ برطانوی سفارت کار جو رپورٹ کا حصہ تھے، بی بی سی کی ڈاکیومنٹری میں انہیں نہیں دکھایا گیا۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے مطابق اُس وقت کے وزیر داخلہ ہرین پانڈیا سٹیزن ٹریبیونل کے روبرو پیش ہوئے۔ ان کے اور آئی پی ایس عہدیدار سنجیو بھٹ دونوں کے مطابق فسادات بھڑکنے کے بعد 27 فروری کی شام اعلیٰٰ پولیس عہدیداروں کا ایک اجلاس طلب کیا گیا۔ اس اجلاس میں نریندر مودی نے پولیس کو ہدایت دی کہ گودھر واقعہ پر ہندوؤں کا ردعمل سامنے آئے گا اور پولیس کو چاہئے کہ اُنہیں (ہندوؤں کو) اپنا غصہ نکالنے دیں۔ بعد میں گجرات کے وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کو قتل کردیا گیا اور سنجیو بھٹ کو ایک پرانے مقدمہ میں سزا ئے عمر قید سنادی گئی اور وہ سزائے عمر قید بھگت رہے ہیں۔ (سنجیو بھٹ کو دراصل ان کی انسانیت نوازی، سچائی اور انصاف پسندی کی سزا دی جارہی ہے)۔ ایک عیسائی مذہبی رہنما سپڈرک پاریکھ جنہوں نے ہرین پانڈیا سے سٹیزن ٹریبیونل کے روبرو پیش ہونے کی درخواست کی تھی ، اس بات کی توثیق کی کہ ہرین پانڈیا سٹیزن ٹریبیونل کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ قتل عام میں بچ جانے والے ایک متاثرہ کو بی بی سی ڈاکیومنٹری میں دکھایا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بات کا پروپگنڈہ کیا گیا کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے مودی کو ’’کلین چٹ‘‘ دی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عدالت کے ساتھ تعاون کرنے والے خصوصی عہدیدار راجو رامچندرن نے کہا کہ رپورٹ میں قانونی کارروائی کیلئے درکار کافی شواہد موجود ہیں لیکن افسوس کہ اسے بالکلیہ طور پر نظرانداز کردیا گیا۔ ساتھ ہی جنرل ضمیرالدین شاہ (بالی ووڈ اداکار نصیرالدین شاہ کے بھائی) نے صاف طور پر کہا تھا کہ تشدد پر قابو پانے کیلئے مقامی مدد کی فراہمی سے قبل ان کی فوجی یونٹ کو تین دنوں تک انتظار کرنا پڑا اور وہ تین دن ہی تھے جس میں تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے۔
اب چلتے ہیں بی بی سی ڈاکیومنٹری کے حصہ دوم کی جانب، اس حصہ میں بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی کی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ انہوں نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اقدامات کئے۔ ڈاکیومنٹری میں دفعہ 370 کی منسوخی (یہ دفعہ جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرتی تھی) پھر جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ برخاست کرکے مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کرنا ساتھ ہی وادی میں مسلح افواج کو دیئے گئے آزادانہ اختیارات وغیرہ کو دکھایا گیا ہے۔ فلم کے دوسرے حصہ میں تخریبی ایجنڈہ کو بھی پیش کیا گیا جو گاؤ (بڑے جانور کے گوشت) کی شکل میں منظر عام پر لاکر معاشرہ میں بے چینی پیدا کی گئی اور ہجومی تشدد کے نام پر درجنوں بے قصور مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ اس فلم میں شمال مشرقی ریاستوں کے کئی بی جے پی قائدین کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا کہ وہ بھی بیف کھاتے ہیں، گاؤ اسمگلنگ، بیف کھانے اور گائے کے چمڑی اُکھاڑنے پر مسلمانوں کے قتل عام اور دلت نوجوانوں کی چمڑی اُدھیڑنے کے واقعات کو بھی فلم میں پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ کیسے اس کے نفسیاتی اثرات سماج پر مرتب ہورہے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسے وقت ہورہا ہے جبکہ عالمی بازار میں ہندوستان سرفہرست ’’بیف ایکسپورٹر‘‘ کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ فلم میں NRC ، CAA (شہریت ترمیمی قانون) جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں تشدد جیسے واقعات کو بھی پیش کیا گیا اور بتایا کہ کیسے پولیس ان یونیورسٹیوں میں داخل ہوئی اور طلبہ کو خطرناک حد تک زدوکوب کیا۔ سی اے اے میں مسلمانوں کو نظرانداز کیا گیا جو ہندوستان کے سکیولر تانے بانے اور دستور کے مغائر ہے۔ NRC میں بھی خاص طور پر ریاست آسام میں مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا اور جب یہ انکشاف ہوا کہ 20 لاکھ افراد کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے ضروری دستاویزات نہیں ہیں اور ان میں 12 لاکھ ہندو ہیں تب اُن کے معاملے میں خاموشی اختیار کی گئی۔ CAA دراصل دستاویزات نہ رکھنے والے ہندوؤں کو پچھلے دروازے سے شہریت دینے اور مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔