جب ملک میں دستور کا نفاذ ہوا تھا تو آر ایس ایس نے بطور احتجاج اس کا نسخہ جلا دیا تھا: جے رام رمیش
نئی دہلی، 27 جون (یو این آئی) کانگریس نے کہا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا نظریہ آئین مخالف ہے ، اسی لیے ان کی طرف سے نئے دستور کا مطالبہ بار بار کیا جاتا رہا ہے ، لیکن اب اس نظریے کے لوگوں نے براہ راست حملہ کرتے ہوئے آئین کے دیباچے سے سماجی اور سکیولر الفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے ۔ کانگریس نے کہا کہ بی جے پی-آر ایس ایس کی آئین مخالف سوچ اب کھل کر سامنے آگئی ہے ، اسی لیے آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبلے نے آئین کے دیباچے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے ۔ ہوسبلے نے کہا ہے کہ ‘سوشلسٹ’ اور ‘سیکولر’ الفاظ کو آئین کے دیباچے سے ہٹا دینا چاہیے ۔ پارٹی نے کہا کہ یہ بابا صاحب کے آئین کو ختم کرنے کی سازش ہے اور آر ایس ایس-بی جے پی ہمیشہ اس کے لیے سازش کرتی رہی ہے ۔ جب ملک میں دستور نافذ ہوا تو آر ایس ایس نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے آئین کی کاپی کو جلایا تھا۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی لیڈروں نے کھلے عام کہا تھا کہ انہیں آئین میں تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ میں 400 سے زیادہ سیٹوں کی ضرورت ہے ، لیکن عوام ان کی سازش کو سمجھ چکے ہیں، اسی لیے عوام نے خود انہیں سبق سکھا دیا۔ اب ایک بار پھر انہوں نے سازشیں شروع کر دی ہیں، لیکن کانگریس ان کے منصوبوں کو کسی بھی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دے گی۔دریں اثناء، کانگریس کے میڈیا انچارج جے رام رمیش نے جمعہ کے روز سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہا کہ آر ایس ایس نے کبھی بھی ہندوستان کے آئین کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا، اس نے 30 نومبر 1949 سے آئین سازی سے وابستہ ڈاکٹر امبیڈکر، نہرو اور دیگر لوگوں پر حملہ جاری رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے بار بار نئے دستور کا مطالبہ کیا ہے اور یہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کا انتخابی نعرہ تھا۔ لیکن ہندوستان کے عوام نے فیصلہ کن طور پر اس نعرہ کو مسترد کر دیا۔ اس کے باوجود آر ایس ایس کی طرف سے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کا مطالبہ مسلسل کیا جا رہا ہے ۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے خود 25 نومبر 2024 کو اسی معاملے پر فیصلہ دیا تھا ، آر ایس ایس بی جے پی کے لوگوں کو اس فیصلے کو پڑھنا چاہئے ۔
ریاستی درجہ کی بحالی کانگریس کی اولین ترجیح
سری نگر،27جون(یو این آئی) آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اور جموں و کشمیر و لداخ کے انچارج ڈاکٹر سید نصیر حسین نے کہا ہے کہ کانگریس پارٹی جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کے لیے پرعزم ہے اور اس اہم مطالبے کو آنے والے مانسون اجلاس میں پارلیمنٹ میں بھرپور طریقے سے اٹھایا جائے گا۔ان باتوں کا اظہار موصوف نے سری نگر میں میں ایک اہم سیاسی تقریب کے دوران کہی، جس میں جموں و کشمیر کے سینئر سیاسی رہنما جی ایم سروڑی اور تاج محی الدین نے دوبارہ کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ڈاکٹر سید نصیر حسین نے کہا کہ ‘ریاستی درجہ جموں و کشمیر کے عوام کا آئینی اور جمہوری حق ہے ، جسے کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کانگریس پارٹی نے ہمیشہ جموں و کشمیر کے مفادات کی ترجمانی کی ہے اور ہم اس بار بھی پارلیمنٹ کے فورم پر عوام کی آواز کو مضبوطی سے اٹھائیں گے ۔’ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو وہی حقوق اور مراعات ملنی چاہییں جو ملک کی دیگر ریاستوں کو حاصل ہیں۔انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کے لیے اپنی سیاسی لڑائی جاری رکھے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح دیگر ریاستوں کو اقتصادی پیکیجز دیے گئے ، ویسے ہی جموں و کشمیر کو بھی ایک بڑا خصوصی پیکیج دیا جانا چاہیے ۔ ڈاکٹر نصیر حسین نے کہا،‘ہم اس لڑائی کو سنجیدگی سے آگے لے جائیں گے ۔ ہمارا ماننا ہے کہ اگر کانگریس مضبوط ہوگی تو جموں و کشمیر کے عوام کے مسائل بھی حل ہوں گے ۔ ہم ریاستی درجہ، روزگار، ترقی اور انصاف کے لیے پرعزم ہیں۔
’اس موقع پر جی ایم سروڑی اور تاج محی الدین نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ کانگریس کے نظریے اور قیادت پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں، اور ریاست کے حقوق کی بحالی کے لیے پارٹی کے ساتھ مل کر جدوجہد جاری رکھیں گے ۔
دونوں رہنماؤں کی واپسی کو کانگریس کے لیے ایک مضبوط سیاسی تقویت قرار دیا جا رہا ہے ، خاص طور پر ایسے وقت میں جب خطے میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہو رہی ہیں اور ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ عوامی سطح پر زور پکڑ رہا ہے ۔تقریب میں موجود دیگر رہنماؤں اور کارکنوں نے دونوں سینئر لیڈروں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کی واپسی کو عوامی امنگوں کی جیت قرار دیا۔