ملک میں جب کبھی انتخابات ہوتے ہیں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بناتی ہیں۔ ایک دوسرے کی پالیسیوں اور پروگراموں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ان کی کارکردگی پر سوال ہوتا ہے ۔ برسر اقتدار جماعتوں کی کارکردگی خاص طور پر موضوع بحث ہوتی ہے ۔ مخالفین کی تنقیدوں کا برسر اقتدار جماعت کی جانب سے اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے جواب دیا جاتا ہے ۔ تاہم جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے یہ بات مسلسل واضح ہوتی جا رہی ہے کہ اس کے پاس اپنی کارکردگی کا رپورٹ نہیں ہے بلکہ پاکستان کا نام لیتے ہوئے وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ہندوستان کے انتخابات کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور پاکستان کی کوئی اتنی اہمیت بھی نہیں ہے کہ وہ ہندوستان کا کسی بھی معاملے میں مقابلہ کرسکے ۔ ہندوستان اب نہ صرف ایشیا کی بلکہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہو رہا ہے ۔ ہماری جمہوریت دنیا کی دوسری سب سے بڑی اور ایک معتبر جمہوریت مانی جاتی ہے اور یہی ہمارا طرہ امتیاز بھی ہے ۔ تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ بی جے پی انتخابات میں ملک اور قوم کو درپیش مسائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ پاکستان کے نام پر ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی پہلو سے پاکستان کو ہندوستانی مہم میں گھسیٹا جاتا ہے اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹاکر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اب جبکہ لوک سبھا انتخابات کیلئے مہم شدت اختیار کرچکی ہے ‘ ہر جماعت کی جانب سے رائے دہندوں کو رجھانے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ اپنے اپنے پروگرامس پیش کئے جا رہے ہیں۔ سابقہ وعدوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اور حکومت سے بھی اس کی کارکردگی پر سوال کیا جارہا ہے تو ایسے میں بی جے پی کے تمام قائدین بشمول وزیر اعظم نریندرمودی بھی اپنی تقاریر میں اپوزیشن کو تنقیدوں کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اس میں پاکستان کا حوالہ ضرور دیا جا رہا ہے ۔یہ در اصل ملک کو درپیش حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک منظم کوشش ہے اور اس کوشش میں بی جے پی قائدین کو ملک کے زر خرید میڈیا کی بھی بھرپور تائید حاصل ہو رہی ہے ۔
جہاں بی جے پی کے کئی قائدین اس تعلق سے بیان بازیاں کرتے ہیں وہیں اب مودی بھی اس میدان میں کود گئے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن کو پاکستان کی ترجمان جماعتیں قرار دیا ہے ۔ یہ ان کی ذہنی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے ۔گذشتہ دنوں جو خبریں آئی ہیں ان کے مطابق بی جے پی کو خودا پنے داخلی سروے میں یہ پتہ چل گیا ہے کہ وہ اقتدار سے محروم ہو رہی ہے اور اسے عوام کی وہ تائید حاصل نہیں ہوپائیگی جس کی پارٹی کو امید تھی ۔ ایسے میںا ب ایک بار پھر عوامی مسائل سے توجہ ہٹا کر ملک و قوم کی ترقی کو بنیاد بناکر رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے کی بجائے اس طرح کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں جن کے ذریعہ ان مسائل سے توجہ ہٹائی جاسکتی ہے ۔ حکومت کی کارکردگی پر سوال کو کہیں پس منظر میں ڈھکیلا جاسکتا ہے ۔ ملک کے وزیر اعظم کو کم ازکم اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کرنا چاہئے ۔ اگر واقعی ان کے دعووں کے مطابق اپوزیشن جماعتیں پاکستان کی ترجمان بن گئی ہیں اور اس کی زبان میں بات کر رہی ہیں تو یہ بات ثابت کرنی چاہئے ۔ جو کوئی بھی پاکستان کی ترجمانی کرتا ہو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہئے ۔ ایسا کرنے کی بجائے محض الزامات عائد کرتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کی کوشش کرنا درست نہیں کہا جاسکتا چاہے یہ کوشش ملک کے وزیر اعظم ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔
ویسے بھی جس وقت نریندر مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے اس وقت بھی وہ انتخابات میں پاکستان اور وہاں کے حکمرانوں کے تذکرے کرتے اور انہیں نشانہ بناتے ہوئے رائے دہندوں کو گمراہ کرتے ۔ وہ آج ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن آج بھی اسی طریقہ کو اختیار کرتے نظر آر ہے ہیں۔ یہ کوششیں ملک کی جمہوریت کیلئے اچھی نہیں ہوسکتیں۔ ملک میںجمہوریت ہے اور جمہوریت میں ایک دوسرے کو عوام کے سامنے اپنے اپنے منصوبے اور منشور پیش کرنے ہوتے ہیں اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اور دوسروں کی نا اہلی کی بنیاد پر انتخابات کا سامنا کیا جاتا ہے لیکن اب سارے جمہوری عمل کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایسی کوششوں سے باز آجانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں جمہوریت حقیقی معنوں میں برقرار رہ سکے ۔