ملک میںکسی بھی ریاست اور قومی سطح پر ہونے والے انتخابات میں لگاتار کامیابیاں درج کرنے والی برسر اقتدار بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ اب عوام کا سامنا کرنے کے موقف میں نہیںر ہ گئی ہے اور وہ عوام کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہوگئی ہے ۔ بی جے پی اب تک یہ بلند بانگ دعوے کرتی رہی ہے کہ اس کی انتخابی مشنری سب سے شاندار ہے اور عوام اس کے حق میں ہیں وہ مسلسل بی جے پی کو ووٹ دیتے ہوئے اس کی تائید کر رہے ہیں۔ بی جے پی کا یہ بھرم لوک سبھا انتخابات میں ٹوٹتا نظر آیا جہاں بی جے پی اپنے بل پر سادہ اکثریت بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیںہوسکی اور اسے نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کی جماعتوں کی تائید حاصل کرتے ہوئے مرکز میں اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ بی جے پی ابھی تک لوک سبھا انتخابات کے جھٹکے سے سنبھل نہیں پائی ہے ۔ بی جے پی کو عوام کے موڈ کا شائد پہلی مرتبہ پتہ چل رہا ہے اور وہ اپنے آپ کو عوام کے درمیان لیجانے سے میں خوف محسوس کر رہی ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جموں و کشمیر اور ہریانہ کیلئے اسمبلی انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ جموں و کشمیر اب بھی دو مرکزی زیر انتظام علاقے ہیں اور انتخابات کے بعد مکمل ریاست کاد رجہ بحال ہونے کی امید ہے ۔ اس کے برخلاف ہریانہ مکمل ریاست ہے اور یہاں بی جے پی کااقتدار ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو یہاں پانچ نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑا تھا ۔ اس کے بعد سے ریاست میں کانگریس کے حوصلے بلند ہیں۔ یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ ریاست میں جے جے پی اور کانگریس کے درمیان اتحاد ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی ریاست میں رائے دہندوں سے ووٹ مانگنے میں پس و پیش کا شکار دکھائی دیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ کے سابق وزیر داخلہ اور سینئر بی جے پی لیڈر انیل وج نے ریاست میں ایک مرحلے میں ہونے والے انتخابات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔ اپوزیشن کی جانب سے تنقید کے بعد انہوں نے ایک عذر پیش کیا کہ ریاست میں رائے ہی کی تاریخ سے پہلے اور بعد میں تعطیلات ہیں اور اس کے نتیجہ میں رائے دہی پر اثر ہوسکتا ہے ۔ تناسب میں کمی آسکتی ہے ۔
انیل وج بی جے پی کے ایک ذمہ دار اور سینئر لیڈر ہیں ۔ وہ ریاست کے وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔ وہ متنازعہ اور اشتعال انگیز بیانات دینے کیلئے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر وہ انتخابات کے التواء کی بات کرتے ہیں تو اس سے بی جے پی کی صفوں میں پائی جانے والی بے چینی اور غیر یقینی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک تعطیلات وغیرہ کا سوال ہے تو الیکشن کمیشن ایسے ہی کسی تاریخ کا اعلان نہیں کردیتا ۔ وہ شیڈول اورتواریخ کا اعلان کرنے سے قبل تمام صورتحال کو پیش نظر رکھتا ہے ۔ر یاست کے عہدیداروں سے گفتگو اور مشاورت کی جاتی ہے ۔ ان سے تجاویز وصول کرتے ہوئے ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے تواریخ اور شیڈول کو قطعیت دی جاتی ہے ۔ کمیشن نے یہ سارا عمل ہریانہ کے انتخابات کیلئے بھی دہرایا ہے ۔ جموں و کشمیر کیلئے بھی اسی عمل کو اختیار کیا گیا تھا ۔ اب بی جے پی لیڈر کی جانب سے جو جواز پیش کیا جا رہا ہے وہ در اصل پارٹی کی بے چینی اور غیر یقینی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے اور یہ واضح اشارہ ہے کہ پارٹی عوام کا سامنا کرنے اور انتخابات میں مقابلہ کرنے کیلئے فی الحال تیار نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کے پاس وسائل یا انتخابی مشنری کا کوئی فقدان ہے ۔ پارٹی کے پاس سب سے زیادہ وسائل اور یقینی طور پر سب سے زیادہ مستحکم انتخابی مشنری موجود ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ عوام کے موڈ کو بی جے پی نے سمجھ لیا ہے اور اسی مخالفت کا اندازہ کرکے انتخابات کے التواء کی بات شروع کی گئی ہے ۔
ملک میں عام انتخابات ہوں یا پھر ریاستی اسمبلیوں کیلئے انتخابات ہوں یا پھر مجالس مقامی یا پھر کارپوریشنس کے انتخابات ہوں ان کے شیڈول اور تواریخ پر کسی نہ کسی کو اعتراض یا بے چینی ضرور ہوتی ہے ۔ حالات ان کیلئے نامساعد ہوتے ہیں اسی لئے وہ اس پر بے چینی کا اظہار کردیتے ہیں اور کوئی جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاہم الیکشن کمیشن اس کو خاطر میں نہیں لاتا ۔ ہریانہ میں انیل وج کے مطالبہ نے خود بی جے پی کے حلقوں اور کیڈر میں پہلے سے موجود مایوسی کو ظاہر کردیا ہے اور پارٹی کی بے چینی واضح ہوگئی ہے ۔ کمیشن کو اس طرح کے دباؤ کو ہرگز بھی تسلیم نہیںکرنا چاہئے اور مقررہ وقت پر چناؤ ہونے چاہئیں۔