بی جے پی سے حلیف جماعتوں کا ڈر

   

راج دیپ سردیسائی
سیاسی جمناسٹکس یا سیاسی اُچھل کود اگر اولمپک میں ایک کھیل کے طور پر شامل کئے جائے تو پھر نتیش کمار بلاشک و شبہ گولڈ میڈل کے ایک اہم دعویدار ہوتے 17 برسوں میں ریکارڈ آٹھویں مرتبہ عہدہ چیف منسٹری کا حلف لینے کے بعد انہوں نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ ایک زیرک سیاست داں ہیں جو موقع کا بالکل صحیح فائدہ اٹھاتا ہے اور ویسے بھی نتیش کمار کی سیاسی قلابازیاں اب ان کے سیاسی ڈی این اے کا حصہ ہیں۔ ایک اور اہم بات ہے کہ بہار میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، اس سے خسارہ ساکھ میں اضافہ ہی ہوسکتا ہے۔ بہار میں حکومت کی جو تبدیلی ہوئی، اتحاد جس طرح بدل گئے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے توسیع پسندانہ عزائم سے اپوزیشن پریشان ہے۔ وہ کسی بھی طرح بی جے پی کے ہاتھوں اپنا وجود ختم نہیں کرواسکتی۔ بی جے پی نے اپوزیشن سے پاک بھارت ایجنڈہ پر عمل آوری کا جیسے ہی اعلان کیا، اپوزیشن اور اس کی حلیف جماعتیں چوکس ہوگئیں۔ وہ بی جے پی کو کسی بھی قسم کا موقع دینا نہیں چاہتی۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے حال ہی میں یہ بیان دیا تھا کہ اب ملک میں صرف بی جے پی ہی رہے گی، علاقائی جماعتیں منظر عام سے غائب ہوجائیں گی جس کے بعد خود بی جے پی کی حلیف جماعتوں میں بے چینی پھیل گئی اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئیں کہ کہیں بی جے پی دوستی کے نام پر ان کے وجود کیلئے خطرہ تو نہیں بن جائے گی۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا کا ایک اپنا مقام تھا۔ بی جے پی نے ایکناتھ شنڈے کے ذریعہ اس مقام و مرتبہ کو ایک طرح سے شدید نقصان پہنچایا۔ جنتادل یو نے ان ہی خدشات کے تحت بی جے پی سے تعلقات ختم کرلئے۔
حلیفوں کا بی جے پی سے خوف کا مشاہدہ 2019ء میں ہی دیکھا گیا۔ جب اس کی دو بڑی اور اہم حلیف جماعتوں اکالی دل اور شیوسینا نے اس سے دُوری اختیار کی، نہ صرف اس سے دوری اختیار کی بلکہ این ڈی اے کو بھی خیرباد کہہ دیا جبکہ دیگر دو حلیف جماعتوں آل انڈیا ڈراویڈا منترا کازھگم(AIDMK) اور لوک جن شکتی پارٹی داخلی اختلافات اور خلفشار کا شکار ہوئیں۔ اکالی دل بہت کمزور ہوگئی اور شیوسینا تقسیم ہوکر رہ گئی۔ اگر دیکھا جائے تو این ڈی اے اب ایک ایسی نئی سیاسی طاقت بن گئی ہے جو اپنی ہی حلیف جماعتوں کا شکار کرنے لگی ہے اور یہ بی جے پی کے (مودی ۔ شاہ یا ایم ایس) ورژن کے ذریعہ ہورہا ہے جبکہ ماضی میں اڈوانی ۔ واجپائی یا اے وی ورژن بھی ہوا کرتا تھا، لیکن بی جے پی نے کبھی بھی اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کیا۔ بہار جیسی ریاست میں جنتا دل (یو) 2020ء کے اسمبلی انتخابات تک بی جے پی کی سینئر پارٹنر تھی۔ ان انتخآبات میں بی جے پی کی نشستوں کی تعداد اور دونوں کا اوسط جنتا دل یو سے کہیں زیادہ بہتر رہا۔ اس بات کی اطلاعات بھی ہیں کہ این ڈی اے کے ایک اور اتحادی چراغ پاسوان کو جنتا دل (یو) کو کمزور کرنے کیلئے استعمال کیا گیا جس سے نتیش کمار مزید برہم ہوگئے اور انہیں خاص طور پر مہاراشٹرا میں بی جے پی کے کردار کو دیکھ کر ایک جھٹکہ لگا جہاں شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان 25 برسوں تک اتحاد برقرار تھا لیکن بی جے پی کی قربت نے بی جے پی کو مضبوط اور شیوسینا کو کمزور کردیا۔ پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اکالی دل نے دیکھ لیا کہ بی جے پی اسے اپنے فائدہ کیلئے استعمال کررہی ہے تب اس نے بی جے پی کی پکڑ سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں بھی کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بی جے پی نے اپنے اتحادی جماعتوں کے ایک ایک رکن کو ہی کابینہ میں شامل کیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی نے سب سے پہلے ان ریاستوں کی غیرکانگریس جماعتوں کو اپنا حلیف بنایا جہاں کانگریس طاقتور پوزیشن میں تھی۔ مثلاً مہاراشٹرا میں کانگریس طاقتور مقام رکھتی تھی۔ لیکن بی جے پی نے وہاں اپنے پر پھیلانے کیلئے شیوسینا کی طاقت کا استعمال کیا۔ اکالی دل کی سکھ شناخت نے بی جے پی کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ بہار میں ذات پات کے پیچیدہ حساب کتاب میں منڈل کمیشن سفارشات کی حامی جنتا دل (یو) نے بی جے پی کو وہاں اپنے اعلیٰ ذات کے حامیوں سے بالاتر ہوکر آگے بڑھنے کی اجازت دی، لیکن پچھلے دس برسوں سے بی جے پی (مودی۔ شاہ) نے او بی سیز کی زیرقیادت ایک مختلف سماجی اتحاد تشکیل دیا، خاص طور پر ملک کی ہندی پٹی میں دونوں نے اس اتحاد کو آزمایا جس کے نتیجہ میں حلیف جماعتوں پر انحصار کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ امیت شاہ جوڑی کے حوالے کردینے کی بجائے عزت نفس کو اہمیت دی اور بی جے پی سے دور ہوگئے جس کی تازہ ترین مثال نتیش کمار ہیں جنہوں نے این ڈی اے سے ناطہ توڑ لیا۔ ویسے بھی نتیش کمار نریندر مودی کو چیلنج کرنے والے پہلے لیڈر ہیں۔ انہوں نے اس وقت مودی کی شدت ے مخالفت کی تھی جب 2013ء میں مودی کو عہدۂ وزارت عظمیٰ کیلئے بی جے پی کا چہرہ بنایا گیا تھا یا امیدوار بنایا گیا تھا اور جب لالو یادو کے ساتھ سکیولر مہا گٹھ بندھن باقی نہیں رہا تب نتیش کمار نے یوٹرن لیا اور اس طرح 2017ء میں این ڈی اے میں ان کی واپسی ہوئی۔ یہ جماعتیں اور ان کے قائدین کیلئے ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جہاں وہ الگ تھلگ ہونے سے بچنے کیلئے بی جے پی (مودی۔شاہ) کی اتھارٹی قبول کرلیں یا پھر مرکزی ایجنسیوں کے ڈر سے بی جے پی کے ہاتھوں یرغمال بن جائیں۔ آپ کو بتادیں کہ اوڈیشہ کے نوین پٹنائک اور آندھرا پردیش کے جگن موہن ریڈی نے مرکز سے کسی قسم کا پنگا نہیں لیا اور سکون سے اقتدار پر فائز ہیں۔
ہاں! ممتا بنرجی سب سے زیادہ بی جے پی کی مخالفت کرتی رہی لیکن نائب صدر کے انتخابات میں خود کو رائے دہی سے دُور رکھنے سے متعلق ان کا فیصلہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مودی کے ساتھ فیصلہ کن جنگ لڑنے کا جوکھم لینے کیلئے تیار نہیں، حالانکہ دوسری علاقائی جماعتیں اور سیاسی خاندان بی جے پی کے ساتھ ساتھ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے راڈار پر ہیں۔ بہار میں نتیش کمار نے بی جے پی سے اتحاد تو توڑ لیا اور وہاں کی ذات پات کی سیاست کافی پیچیدہ ہے لیکن بی جے پی خاموشی رہنے والے نہیں۔ ایسے میں کیا اب پٹنہ ،انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی اگلی منزل ہوگی۔ بی جے پی کس طرح اپنی حلیف جماعتوں کو ہضم کرجاتی ہے، اس کی بہترین مثال گوا ہے جہاں 1990ء میں بی جے پی نے علاقائی پارٹی مہاراشٹرا وادی گومنشک پارٹی (MGP) کو استعمال کیا اور بی جے پی نے اب اسے ہی ہضم کرلیا۔